08 مارچ ، 2020
میرا نام جانو قتال پوری ہے، میں عورتوں کا بہت بڑا فین ہوں یعنی اُن کے حقوق کا، لیکن جب سے کچھ عورتوں نے ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسا لغو اور بیہودہ نعرہ ایجاد کیا ہے میں سخت غصے میں ہوں۔
نجانے وہ کون لوگ ہیں جنہیں یہ فحش نعرہ پسند ہے، مجھے تو اِس نعرے کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ میرے جسم پر میر ی مرضی چلے گی، یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میری گاڑی، میری مرضی، جیسے چاہوں چلاؤں اور جسے چاہوں دے ماروں!
میں تو نہیں مانتا ایسے فضول نعرے کو، میرے خیال میں عورت کے جسم پر اُس کی مرضی چل ہی نہیں سکتی کیونکہ اگر ایسا ہو تو عورت کبھی اپنے آپ کو بوڑھی نہ ہونے دے۔
اچھو کباڑیے کا بھی یہی خیال ہے، کل اُس سے جب عورتوں کے حقوق پر بات ہوئی تو وہ چھاتی پھلا کر کہنے لگا کہ میری طرح وہ بھی عورتوں کی آزادی کا سب سے بڑا چیمپئن ہے، پھر اُس نے مجھے اپنی جوانی کا ایک قصہ سنایا کہ کیسے اسے اپنے محلے کی لڑکی سے عشق ہو گیا تھا، لڑکی چونکہ بہت حسین تھی اِس لیے اچھو کو لفٹ نہیں کرواتی تھی، اچھو نے اُس کی بہت منت سماجت کی، ترلے کیے، شادی کے پیغامات بھیجے مگر وہ نہیں مانی، کہتی تھی میری مرضی، جس سے چاہوں گی شادی کروں گی۔
اچھو سے یہ بات برداشت نہیں ہوئی، بھلا اُس کی غیرت کیسے یہ گوارا کرتی کہ اُس کی محبت کسی اور کی ہو جائے، کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اُس لڑکی کی بات پکی ہو گئی، ایک دن وہ گھر سے خریداری کی غرض سے نکلی تو اچھو نے اُس کا راستہ روک لیا اور اپنی سچی محبت کا واسطہ دیا کہ شادی سے انکار کرکے اُس کے ساتھ بھاگ جائے مگر وہ نہ مانی، اچھو کو غصہ آگیا، اُس کے ہاتھ میں تیزاب کی بوتل تھی، اُس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اور لڑکی پر تیزاب الٹ دیا، اُس کا سارا چہرہ جھلس گیا۔
اپنی محبت پر تیزاب پھینکنے کا اچھو کو آج بھی افسوس ہے مگر پچھتاوا نہیں کیونکہ اس کے بعد لڑکی کی شادی ختم ہو گئی اور وہ اب تک کنواری ہے، اچھو کہتا ہے کہ اگر وہ میری نہیں بن سکی تو کسی اور کی بھی نہیں بنی، میری محبت میری مرضی، اچھو آج کل ڈرامہ لکھ رہا ہے جس کا نام ہے ’’میرے پاس تیزاب ہے‘‘۔
اچھو کباڑیے کے علاوہ میرا دوست نسیم گینڈا بھی حقوقِ نسواں کا حامی ہے، اس سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا کہ پورے ملک میں فیمنزم کا مجھ سے بڑا حمایتی کوئی نہیں، میں تو عورتوں کو ہر قسم کی آزادی دینے کاقائل ہوں بشرطیکہ وہ اپنی حیا برقرار رکھیں اور بے وفائی نہ کریں، رہی بات اِس نعرے کی تو یہ نہایت ہی فحش اور بیہودہ نعرہ ہے جس کا مطلب سوائے اِس کے اور کچھ نہیں کہ جس کے ساتھ مرضی ہو گی اُسی کے ساتھ ملوں گی۔
اخ تھو! چلو آج تمہیں ایک مزے کا قصہ سناؤں، میری فیکٹری میں ایک لڑکی کام کرتی تھی، ہو گی کوئی اٹھارہ انیس سال کی، ایک دن مجھے پتا چلا کہ اُس نے کیشئر سے کچھ پیسے ادھار مانگے ہیں، کیشئر نے کریدا تو معلوم ہوا کہ چند ماہ پہلے اُس نے کسی لڑکے سے نکاح کیا تھا جو اب اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے، لڑکی اب اپنا ابارشن کروانا چاہتی ہے۔
میں نے لڑکی کو آفس میں بلوایا، تمہیں تو پتا ہے کبھی کبھار دن میں بھی پی لیتا ہوں، لڑکی اچھی خاصی قبول صورت تھی، میں نے اسے کہا کہ جتنے پیسے چاہئیں کیشئر سے مانگ لینا مل جائیں گے، بہت پریشان تھی بیچاری سو اس کے حواس بحال کرنے کے لیے میں نے ڈرنک بھی آفر کر دی، وہ نجانے کیا سمجھ بیٹھی کہ فوراً کمرے سے نکل کر بھاگ گئی اور آج تک اپنی تنخواہ لینے بھی فیکٹری واپس نہیں آئی۔
اب بندہ ایسی لڑکیوں سے پوچھے کہ اپنے جسم پر مرضی چلانے کا نتیجہ تو تم نے بھگت لیا، ذرا ہماری مرضی کے مطابق بھی چل کر دیکھ لیتی شاید کوئی بھلا ہو جاتا۔
میرے تمام دوستوں میں شوکا گرنیڈ سب سے زیادہ لبرل اور پروگریسیو ہے مگر وہ بھی اِس نعرے کے خلاف ہے، شوکے گرنیڈ کو آپ کوئی عام بندہ نہ سمجھیں، میرا یہ دوست انجینئر ہے اور باہر کے ممالک میں ملازمت کرتا رہا ہے، چند دن پہلے کسی نے ٹویٹر پر اِس فحش نعرے کی حمایت کی تو شوکا گرنیڈ پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑ گیا اور جواب میں ٹویٹ کیا کہ کیا تم اپنی ماں بہن کو یہ نعرہ پلے کارڈ پر لکھ کر عورت مارچ میں جانے کی اجازت دو گے؟
اِس کے ردعمل میں اُس کاٹھے لبرل نے کہا کہ مسٹر شوکے آپ کی دلیل کمزور ہے، اِس دلیل میں سقم یہ ہے کہ آپ نے فرض کر لیا ہے کہ عورتیں اپنے اچھے برے کا فیصلہ نہیں کر سکتیں، سو ہم نے بتانا ہے کہ انہیں کیسے اور کیا کرنا چاہیے، اسی لیے آپ نے کہا کہ کیا میں اپنی ماں بہن کو اجازت دوں گا جبکہ میرا یہ ماننا ہے کہ بالغ مرد کی طرح بالغ عورت بھی اپنے فیصلے میں آزاد اور خود مختار ہے، اگر میں اپنے باپ اور بھائی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں تو یہی اصول ماں بہن کے معاملے میں بھی لاگو ہوگا۔
شوکے گرنیڈ نے یہ ٹویٹ پڑھ کر اُس شخص کی کھوکھلی دانشوری پر قہقہہ لگایا اور اسے تین چار ایسی گالیوں سے نوازا جو شوکے کی اپنی تخلیق کردہ ہیں اور جن کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا، ظاہرہے کہ کاٹھے لبرل کو جان چھڑاتے ہی بنی، دُم دبا کر بھاگ گیا۔
اچھو کباڑیے، نسیم گینڈے اور شوکے گرینیڈ کی طرح میں‘ جانو قتال پوری بھی عورتوں کے معاملے میں بہت آزاد خیال ہوں یعنی مجھے آزاد عورتیں پسند ہیں، مصیبت مگر یہ ہےکہ یہ آزاد عورتیں روز بروز کچھ زیادہ ہی آزاد ہوتی جا رہی ہیں، یہ فحش لباس پہنتی ہیں، سگریٹ کے سوٹے لگاتی ہیں اور عورت کے حقوق کے نام پر مارچ کرکے عریانی کا پرچار کرتی ہیں۔
میں کوشش کروں گا کہ مارچ میں سب سے پہلے پہنچ جاؤں تاکہ اِن عورتوں کو براہِ راست دیکھ سکوں، ٹی وی پر صحیح نظر نہیں آتا۔
خیر جو بھی ہو، مجھے تو بس اِس بات کا افسوس ہے کہ اِن عورتوں اور بیہودہ نعروں نے نئی نسل کے ذہنوں کو اِس قدر آلودہ کر دیا ہے کہ میری بھانجی کہتی ہے کہ ماموں اگر میرے جسم پر کسی اور کی مرضی ہوگی تو و ہ تو ریپ کہلائے گا نا! اب بندہ کیا جواب دے ایسی خرافات کا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔