بلاگ

کورونا وائرس کی دہشت اور ہومیو پیتھی

غور کیجئے تو محسوس ہو گا کہ دہشت کی بھی بہت سی قسمیں ہیں جس میں آج کل کورونا وائرس ہے—فوٹو فائل

مہنگائی، بیروزگاری، حکومتی نالائقیوں، عورت مارچ اور نیب کے کارناموں سے کہیں زیادہ دہشت کورونا وائرس نے پھیلا رکھی ہے ۔ غور کیجئے تو محسوس ہو گا کہ دہشت کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔

سب سے خوفناک قسم تو خودکش حملے اور دہشت گردی کی جان لیوا کارروائیاں ہیں لیکن دہشت کی ایک چھوٹی سی قسم حرص و ہوس بھی ہے۔

دولت کے انبار لگانے کی ہوس میں ایسی عمارتیں بنانا جو چند ہی برسوں میں ڈھیر ہو کر انسانی زندگیوں کے چراغ گل کر جائیں یا ملاوٹ کا زہر پھیلا کر انسانی زندگیوں سے کھیلنا اور دولت سمیٹنا یا ڈاکے ڈالنا اور قتل کرنا حرص و ہوس ہی کے شاخسانے ہیں اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے چھوٹی دہشت گردی تصور ہوتے ہیں۔

گزشتہ سال میں ایک نامور ڈاکٹر کی انتظار گاہ میں بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا تو میرے ساتھ بیٹھے ایک سفید پوش بزرگ نے مجھ سے پوچھا ڈاکٹر صاحب کی فیس کتنی ہے؟ میں نے بتایا کہ تین ہزار روپے ہے۔

یہ سن کر ان کے چہرے کا رنگ بدلا، پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے اور وہ چند لمحے انتظار کے بعد ڈاکٹر کو دکھائے بغیر چپکے سے اٹھ کر چلے گئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے تین ہزار روپے فیس کا انکشاف بھی ان کے لئے ایسی ہی واردات تھی۔ کوئی بیس برس قبل میں اپنا خراب گلا دکھانے ایک ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس پہنچا۔

مریضوں کا ہجوم تھا، ڈاکٹر صاحب پرانے مہربان تھے۔ ملاقات ہوئی تو باتوں ہی باتوں میں فرمایا میں رات ایک لاکھ روپے لیکر اٹھتا ہوں جب تک یہ ٹارگٹ پورا نہ ہو بیٹھا رہتا ہوں۔(آج کے دور میں وہ ایک لاکھ پانچ لاکھ کے برابر ہیں) ایسے بھی مہربان ڈاکٹروں کو جانتا ہوں جو مستحق افراد سے فیس نہیں لیتے اور دوائی بھی اپنے پاس سے دے دیتے ہیں۔

انسان سکونِ قلب اور آرام دہ خوشحال زندگی چاہتا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ حرص و ہوس کے مارے ہیرے جواہرات کے ڈھیر پر بیٹھے بھی ھل من مزید کے انگاروں میں جل رہے ہوتے ہیں جبکہ انسانی خدمت اور قناعت کا جذبہ رکھنے والوں کو اللہ پاک سکونِ قلب کا انعام عطا فرما دیتے ہیں۔

ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے میرا پہلا تعارف راولپنڈی کے ڈاکٹر ریاض احمد مرحوم کے ذریعے ہوا جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس تھے لیکن پریکٹس ہومیو پیتھی کی کرتے تھے۔

عجب درویش انسان تھے اور اللّٰہ پاک نے انہیں شفا کے تحفے سے نوازا تھا۔ مریضوں کی اکثریت سے کچھ نہیں لیتے تھے اور باقی سے چند روپے۔ ہومیو پیتھی سے دوسرا تعارف ساہیوال کے ڈاکٹر نیاز کے ذریعے ہوا جو طویل عرصے تک تمام مریضوں کا علاج مفت کرتے تھے اور دوائی بھی اپنے پاس سے دیتے تھے۔

اب کاروباری خسارے کے سبب کلینک بند کر چکے ہیں لیکن ہومیو پیتھک کے ماہر ہیں اور برلن سے سند یافتہ ہیں۔

چند برس قبل ملک میں ڈینگی کی دہشت پھیلی تو میں نے ان سے علاج پوچھا انہوں نے کہا کہ جو لوگ پانچ روز تک LEDUM200کی ہر روز ایک خوراک لے لیں وہ ان شاء اللّٰہ ڈینگی کے حملے سے محفوظ رہیں گے۔ ہومیو پیتھک سستا اور نیچرل طریقہ علاج ہے جسے میں نے اکثر نہایت موثر پایا ہے۔ ان دنوں میں نے بہت سے لوگوں کو ’’لیڈم‘‘ دی کہ وہ خود اور اہلِ خانہ کو اس کے قطرے پانچ دن پلائیں، اللّٰہ کا شکر ہے وہ تمام حضرات ڈینگی سے محفوظ رہے۔ ڈینگی کے کئی مریضوں کو میں نے ہومیو پیتھک کے سستے علاج سے شفایاب ہوتے دیکھا۔

کورونا وائرس کی دہشت پھیلی تو میں نے ان سے رابطہ کیا اور علاج پوچھا۔ انہوں نے کورونا سے نبردآزما ہونے کے دو طریقے بتائے۔

اول ہے حفظِ ماتقدم۔ یعنی اگر آپ یہ علاج کر لیں تو قوتِ مدافعت اس قدر بڑھ جائے گی کہ ان شاء اللّٰہ کورونا وائرس سے محفوظ رہیں گے۔

دوم وہ دوائی جو کورونا کا حملہ ہونے کے بعد شفایاب کرتی ہے۔ زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہومیو پیتھک پر اعتماد نہیں کرتے اور اکثر بڑے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایلوپیتھی طریقہ علاج میں ریسرچ پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ان کا فرمان درست ہے کیونکہ ایلو پیتھی کے ڈاکٹر ہومیو پیتھی کو اپنی سوتن سمجھتے ہیں۔

اس موقع پر مجھے پیر مغاں اور شہنشائے مزاح مشتاق یوسفی مرحوم کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے جو مزاح بھی ہے اور کسی حد تک حقیقت بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہومیو پیتھی کا کوئی سائیڈ ایفکٹ (SIDE EFFECT)نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی اس کا کوئی بھی ایفکٹ نہیں ہوتا‘‘۔ بہرحال میرا تجربہ ہے کہ ہومیو پیتھک خاصا موثر طریقہ علاج ہے بشرطیکہ ڈاکٹر قابل ہو کیونکہ اس علاج کی بنیاد علامات پر ہوتی ہے اور علامات (SYMPTOMS) کا مطالعہ وقت اور توجہ چاہتا ہے۔

کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے حفظِ ماتقدم کے طور پر درج ذیل چار دوائیاں خریدیں اور ہر روز اپنی ترتیب کے مطابق خالی پیٹ ایک دوائی کے پانچ قطرے معمولی پانی میں ملا کر پئیں اور پھر کم از کم نصف گھنٹہ تک کچھ نہ کھائیں۔ یہ علاج کم از کم ایک ماہ جاری رکھیں اس طرح ہر دوائی سات دفعہ لی جائے گی۔ پاکستانی دوائیاں سستی ہیں اور عام دستیاب ہیں نام اور ترتیب درج ذیل ہے :

1-TUBERCLONIUM200

2-PHOSPHURS200

3-SULPHUR200

4-BRYONIA200

یاد رکھیں ہر روز صرف ایک دوائی ایک بار لینی ہے۔

دعا ہے اللّٰہ پاک آپ کو اس مرض سے محفوظ رکھے لیکن اگر یہ بیماری لگ جائے تو ولایتی طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ یہ دوائی لیں۔

ان شاء اللہ جلد شفا ہو گی۔ دوائی کا نام ہے ARSENIC ALM30۔ اس کے پانچ قطرے دن میں تین دفعہ لیں اور انگریزی دوائیوں سے نصف گھنٹہ پہلے یا بعد میں ایک گھونٹ پانی میں ملا کر پی جائیں۔ یہ سستا طریقہ علاج ہے جس سے کم وسیلہ لوگ فیض یاب ہو سکتے ہیں اور اسپتالوں کی مالی دہشت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

سیانے کہتے ہیں کہ علاج سنت ہے اور شفا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، لوگ بغیر علاج کے بھی تندرست ہو جاتے ہیں اور بہترین علاج کے باوجود تندرست اور صحت یاب نہیں ہوتے، صدقہ اور دعا بھی دوا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔