بلاگ
Time 28 مارچ ، 2020

کورونا وائرس۔ چند تجاویز

عوام سے گزارش ہے کہ وہ کورونا سے متعلق کسی حکیم، صحافی، مولوی یا باتونی کی باتوں پر کان نہ دھریں—فوٹو شٹر اسٹاک

وبا یا آسمانی آفت تو کیا ہر انسان کو ہر وقت معمولی سی معمولی آزمائش سے بھی ﷲ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ یقیناً کورونا وائرس ایک بہت بڑی آزمائش ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے ہمیں جہاں اپنی بھرپور کوشش جاری رکھنی چاہئے، وہاں ہمہ وقت ﷲ کے حضور بھی دست بدعا رہنا چاہئے۔ 

بدقسمتی سے پاکستان میں حسبِ روایت اس وبا سے متعلق بعض بےبنیاد تصورات اور باتیں بھی وابستہ کر لی گئی ہیں جبکہ ہمارا میڈیا جس طریقے سے کوریج کر رہا ہے اس کی وجہ سے خوف کی فضا بھی بڑھ گئی ہے۔ میں ڈاکٹر ہوں اور نہ کسی اور فن کا ماہر لیکن چونکہ ڈاکٹروں کو بھی سنا ہے، حکومتی ذمہ داروں کو بھی اور دینی شخصیات کو بھی، اس لیے ان کی آرا کے تناظر میں چند گزارشات سامنے رکھ رہا ہوں۔

عوام سے گزارش ہے کہ وہ کورونا سے متعلق کسی حکیم، صحافی، مولوی یا باتونی کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ جو کچھ ان کو ڈاکٹر کہیں، صرف اس پر یقین کریں اور ڈاکٹروں ہی کی ہدایات پر عمل کریں۔ 

تمام ڈاکٹروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کورونا وائرس سے پاکستان جیسے ملک میں مرنے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر صحتمند انسان کو لگ بھی جائے تو چند روز زکام اور بخار ہونے کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ ہاں! البتہ بوڑھے لوگوں یا پھر ان جوانوں جن کو پھیپھڑوں کی بیماری ہو، کو احتیاط کرنی چاہئے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو چند روز تک بہرصورت الگ تھلگ رکھنا چاہئے۔

اس وقت مذہبی رہنمائوں اور علمائے کرام کی ذمہ داری کسی بھی طبقے حتیٰ کہ حکومت سے بھی بڑھ کر ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلائو کا ذریعہ میل ملاپ اور ہاتھ ملانا ہے جس کا سب سے زیادہ امکان نمازوں اور مذہبی اجتماعات میں ہوتا ہے۔ ہمارے عوام کو جب تک مسجد کا مولوی نہ کہے کہ اس وقت مسجد میں آنا ضروری نہیں، تب تک وہ کسی حکومت کی بات نہیں سنیں گے اور آئمہ مساجد کو جب تک ان کی جماعتوں کے مذہبی رہنما ہدایت نہیں دیں گے، وہ ایسا نہیں کریں گے۔ 

اس لیے تمام دینی جماعتوں کے سربراہان، مختلف مسالک کے اکابرین اور پیر صاحبان کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کریں کہ جب تک یہ وبا قابو میں نہیں آتی وہ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔ تبلیغی جماعت کے اکابرین سے میری دست بستہ گزارش ہے کہ جس طرح وہ ٹولیوں کی شکل میں گھر گھر جاکر گشت کرتے اور لوگوں کو مسجد کی طرف بلاتے ہیں، اسی طرح اگر وہ دو دو، تین تین افراد کی ٹولیوں میں گھر گھر جاکر لوگوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیں اور دینی اور شرعی لحاظ سے اس کی حکمت سمجھا دیں تو یہ بڑی قومی خدمت ہوگی۔

زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا کوئی اور آفت، حقیقت یہ ہے کہ ہر موقع پر ہمارے ملک کی مذہبی جماعتوں نے حکومتوں سے بڑھ کر قابلِ فخر کردار ادا کیا ہے۔ ان کے کارکن صرف ڈیوٹی سمجھ کر نہیں بلکہ آخرت کی کمائی کی خاطر رسک لے کر خدمتِ خلق کا یہ کام کرتے ہیں۔ 

یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ تنگ نظر حکومت کے ہوتے ہوئے بھی جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے کورونا کے تناظر میں اپنا دستِ تعاون حکومت کی طرف دراز کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی جماعت کے تمام رضاکار صوبائی حکومتوں کے سپرد کر دیے۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے الخدمت فائونڈیشن کی سینکڑوں ایمبولینسیں اور ایک سو کے قریب اسپتال بھی حکومت کی تحویل میں دے دیے۔ جماعت الدعوۃ کے وسائل تو پہلے سے حکومت نے اپنی تحویل میں لے چکی ہے۔

پاکستانی میڈیا نے اس حوالے سے قابلِ تحسین کردار ادا کیا کہ کورونا کے پہنچنے سے پہلے اس کے بارے میں عوامی سطح پر شعور اجاگر کیا۔ چین میں جب یہ وبا پھیل رہی تھی تو اس وقت ان کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہے اور کس طرح پھیلتی ہے۔ یہی صورتحال اٹلی اور ایران کے لوگوں کے ساتھ ہوئی لیکن پاکستان میں لوگ پہلے سے آگاہ تھے۔ اس حد تک میڈیا کا کردار قابلِ تعریف تھا لیکن اب میڈیا جس طرح اٹلی اور اسپین وغیرہ کی کوریج کرکے وہاں کے مناظر دکھا رہا ہے، اس سے خوف پھیل رہا ہے۔ 

اس لیے میری گزارش ہوگی کہ اب میڈیا کو ان ممالک کی کوریج بند کر دینی چاہئے اور تمام تر توجہ پاکستان میں اس وبا کی کوریج پر مرکوز کرنی چاہئے۔ایک سنگین مسئلہ ڈیلی ویجز ملازمین اور غریب ترین خاندانوں کا ہے لیکن یہ مسئلہ تب تک ہے جب تک اس ملک کے امیر اور صاحبِ دل لوگ حرکت میں نہیں آتے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ حد سے زیادہ امیر ہیں اور بعض حد سے زیادہ غریب۔ مثلاً اگر مردان یا پشاور شہر کے امرا میدان میں نکلیں تو ان کی دولت میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور وہاں کے غریبوں کو ایک ماہ نہیں ایک سال تک راشن ملتا رہے گا۔ 

یہی معاملہ ہمارے ہر شہر کا ہے۔ میری گزارش ہے کہ جماعت اسلامی، جے یو آئی، جے یو پی اور تبلیغی جماعت کے دوست ہر شہر میں مشترکہ کمیٹیاں بناکر ایک فنڈ قائم کریں اور پھر گروپ کی شکل میں امیروں کے پاس جائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ چند روز کے اندر اتنی رقم جمع ہو جائے گی کہ کسی شہر یا کسی محلے میں کوئی بھوکا نہیں رہ سکے گا۔

ایک گزارش ڈاکٹروں، پیرا میڈیکس، نرسز اور اسپتالوں میں کام کرنے والے دیگر رجالِ کار سے متعلق یہ ہے کہ عام حالات میں ان کو ہم سے شکایتیں ہوتی ہیں اور ہمیں ان سے لیکن اب گلوں شکوئوں کا وقت نہیں۔ اس وقت جبکہ ہم گھروں میں بیٹھے ہیں، یہ لوگ مسیحا بن کر ہمارے مریضوں کی جانیں بچا رہے ہیں۔ 

اس وقت یہی لوگ ہمارے سپاہی، ہیرو، ہمارا فخر ہیں۔ ہمیں نہ صرف ان لوگوں کو اپنی دعائوں میں یاد رکھنا چاہئے بلکہ ان کے ہر حکم اور ہر ہدایت پر من و عن عمل کرنا ہے۔ اسی طرح فوجی ہو، پولیس والا ہو یا کوئی کلرک، وہ اگر اس سلسلے میں کسی ڈیوٹی پر مامور ہے تو اس کے ساتھ تعاون ہم سب کا دینی اور قومی فرض ہے۔ یہی جذبہ رہا تو یقین جانیے کہ چند روز بعد ہم اس آزمائش سے سرخرو ہوکر باہر نکلیں گے۔ پھر وہی سیاست ہوگی اور پھر وہی محفلیں جمیں گی۔ ان شاء ﷲ


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔