بلاگ
Time 02 اپریل ، 2020

کورونا کی اس نئی دنیا میں کامیاب کون ہوگا؟

رائٹرز فوٹو

کوئی کہتا ہے کورونا وائرس دین سے دوری کی وجہ سے پھیلا۔ کسی نے اسے اللہ کا عذاب کہا تو کسی نے اسے عالمی معیشت پر قبضہ کرنے کے لیے امریکا یا چین کی سازش قرار دیا۔ کسی نے یہ کہہ کر بھی خوف دلاناچاہا کہ دیکھو کس طرح مسجدیں خالی ہو گئیں۔ غرض کے جتنے منہ اتنی باتیں۔

لیکن نہ جانے کیا وجہ تھی کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی ان باتوں کا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ کوئی خوف تھا نہ دنیا کو بدلتے ہوئے دیکھ کر میں جھنجلائی۔ کبھی کبھی مجھے اپنی اس ڈھٹائی پر حیرانی ہوتی ہے لیکن اس پر میرا کوئی بس نہیں ہے۔

ایسے ہی اپنی زندگی میں مست ہو کر ایک دن میری نظر ٹی وی پر حرم شریف کے دکھائے جانے والے مناظر پر پڑی۔ یہ مناظر دیکھ کر ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے زور سے جھنجھوڑا ہو۔ میں چند لمحوں کے لیے خالی مطاف (خانہ کعبہ کے گرد طواف کا احاطہ) پر سے اپنی نظریں نہ ہٹا سکی۔ صدیوں سے شان و شوکت کا محور خانہ کعبہ آج جیسے سفید چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ کئی سو سالوں سے ہر روز ہزاروں لوگ اس کا طواف کرتے آئے ہیں مگر آج یہاں باجماعت فرض نماز ادا کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ راتوں رات ہم کسی دوسری دنیا میں داخل ہو گئے ہیں جہاں عبادات کے لیے عبادت گاہ کا رخ کرنے والوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ اس دنیا میں جہاں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ جمعہ کی نماز گھر ہی میں پڑھیں وہیں عیسائی جو لاکھوں کی تعداد میں اٹلی کے شہر ویٹیکن میں پوپ کو دیکھنے اور عبادات میں شریک ہونے آتے تھے ان کو بھی کہا گیا کہ گھر ہی سے دعا میں شامل ہوجائیں۔ ہندوستان میں ایودھیا کا سب سے بڑا اجتماع جہاں لاکھوں ہندو، اپنے بھگوان رام کی پیدائش کو ہر سال مناتے ہیں ان کو بھی روک دیا گیا ہے۔ مسجد، مندر، گرجاگھر سب عبادت کرنے والوں سے خالی پڑے ہیں۔

اس نئی دنیا میں اٹلی کی سڑکیں پیار کرنے والوں کی نہیں بلکہ موت کی داستانیں سنانے لگی ہیں۔ چین کا ذکر اس کی ثقافت اور ترقی سے نہیں بلکہ کورونا وائرس کی جائے پیدائش سے کیا جارہا ہے۔ امریکا کو سپر پاور ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی وجہ سے زیر بحث لایا جارہا ہے۔ 

کورونا وائرس کے بعد ایفل ٹاور ---اے ایف پی فوٹو 

برازیل، ترکی، اسپین، فرانس، برطانیہ اب سیاحوں کی رونقوں سے خالی نظر آتے ہیں۔ تاج محل، آئیفل ٹاور، اہرام مصر دنیا کے وہ عجوبے ہیں جو سالوں سے لوگوں کی سیاحت کا مرکز بنے ہوئے ہیں لیکن آج وہ بھی اپنے چاہنے والوں کی راہ تکتے ہیں۔ دی اکانومسٹ کے مطابق اس وبا کی وجہ سے صرف امریکا میں سیر و سیاحت کی صنعت کو 355 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔ اس دنیا میں ملکوں کی درجہ بندی ترقی، جی ڈی پی یا بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیاد پر نہیں بلکہ کورونا سے اموات کی بنا پر کی جا رہی ہے۔

جیسے نائن الیون کے بعد دنیا کا فوکس پوری طرح سے بدل گیا، ویسے ہی کورونا نے بھی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ باقی شعبوں کا تو پتہ نہیں لیکن طبی شعبے میں کی گئی ترقی پر سائنسدانوں کو بہت فخر رہا ہے اور کیوں نہ ہو۔ اسمال پاکس جو ایک وبائی بیماری تھی اور اس سے شہر کے شہر ختم ہو گئے تھے اس کی ویکسین پہلی بار 1976 میں ایجاد کی گئی۔

ویکسین جیسی ایجاد نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے جوانوں کو جان لیوا وبائی امراض سے بچایا اور آج تک کئی بیماریاں ویکسینیشن کی وجہ سے ہی ہم تک پہنچ نہیں پاتیں۔

اسی طرح antibiotics, organ transplant, childbirth advancements طبی شعبے کی کچھ ایسی ایجادات ہیں جنہوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا لیکن کیا کسی نے کبھی سوچا ہوگا کہ اس جدیدترین دنیا کو بھی کسی ایسی آفت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جب ایک انسان کو دوسرے انسان سے ہاتھ ملانے سے بھی منع کیا جائے گا اور ساری دنیا کے سائنسدان مل کر بھی اس کا حل ڈھونڈ نہیں پائیں گے؟

اس نئی دنیا کے طریقے پچھلی دنیا سے بالکل مختلف ہیں۔ اب اپنے ماں باپ بہن بھائیوں عزیز و عقارب سے گلے ملنا پیار نہیں بلکہ دور رہنا پیار سمجھا جاتا ہے۔ محفلوں میں جانا، رسٹورینٹس میں کھانا، دوستوں سے ملنا پچھلی دنیا کی باتیں لگتی ہیں۔ شوہر بیوی کے لیے، بیوی شوہر کے لیے اور بچے ماں باپ کی تیمار داری بھی نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کے مرنے والے کو بھی اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس نئی دنیا میں لاشوں کو سفید کفن اور غسل دینے کے بجائے تھیلی میں باندھنے کا رواج ہے اور بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کے تدفین کے لیے بھی زیادہ لوگ نہ ہوں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں 2005 میں بی بی سی پر دیکھائی جانے والی ڈاکیومنٹری “اینڈ ڈے”  کا حصہ بن گئی ہوں۔ اسی میں بھی ایک جان لیوا مرض جس کا آغاز برطانیہ پہنچنے والے ایک مسافر طیارے سے ہوتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ڈاکیومنٹری میں اس سانحے کو دنیا ختم ہونے کی وجہ دکھایا گیا۔ 

صرف یہی نہیں ہالی ووڈ میں بننے والی کچھ فلموں میں بھی ہدایتکاروں نے جو منظر کئی سال پہلے کھینچا تھا وہ ہو بہو آج کی دنیا کا عکس پیش کررہا ہے۔

کسی بھی دنیا کی طرح یہاں بھی وہی کامیاب ہوگا جو اس کے طور طریقوں پر عمل کرے گا ورنہ اس کا انجام اسی دنیا میں ہو جائے گا اور وہ شاید کبھی واپس پچھلی دنیا میں نہ جا سکے۔ اس سے مجھے امریکی ناول نگار سوزین کالنز کا 2008 میں شائع ہونے والا مشہور ناول “َہنگر گیمز” (جس پر فلمیں بھی بنی ہیں) کی یاد آ گئی جہاں جو سب سے زیادہ محتاط ہوتا ہے اور گیم کے '"رولز" فالو کرتا ہے وہی بچ نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ 

ارستو نے کہا تھا کہ "انسان سماجی جانور ہے" اور کئی صدیوں سے ہم نے اس کو ثابت بھی کیا ہے لیکن آج دنیا میں 3 ارب انسان گھروں میں محصور ہیں۔ اس دنیا میں انسان کا انجام صرف نیکی یا بدی پر منحصر نہیں ہوگا بلکہ نمبر وہی لے جائے گا جو اپنی فطرت کے برعکس سماجی دوری اختیار کر لے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔