خبردار !کورونا وائرس بات چیت اور سانس لینے سے بھی پھیل سکتا ہے

مریضوں کے براہ راست سانس لینے سے جو ذرات ہوا میں پیدا ہوتے ہیں ان سے بھی کورونا وائرس پھیل سکتا ہے: امریکی سائنسدان۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس کے حوالے سے روز نت نئی تحقیقات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں، ایک نئی تحقیق کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مہلک کورونا وائرس صرف چھینک اور کھانسی سے ہی نہیں بلکہ سانس لینے اور بات چیت کرنے سے بھی پھیل سکتا ہے۔

اس حوالے سے آگاہ کرنے کے لیے امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے کمیٹی چیئرمین ڈاکٹر ہاروے فائن برگ نے وائٹ ہاؤس کو ایک خط میں لکھا کہ اگرچہ کورونا وائرس پر اب تک مخصوص تحقیق محدود ہے لیکن دستیاب تحقیقی نتائج کے مطابق ہوا میں موجود چھوٹے چھوٹے ذرات سانس کے ذریعے سے انسانی جسم میں داخل ہو کر کورونا وائرس کا باعث بن سکتے ہیں۔

ڈاکٹر ہاروے فائن برگ نے بتایا کہ یہ خط وائٹ ہاؤس کی جانب سے کورونا وائرس سے متعلق آگاہی کے سوالات پر بھیجا گیا ہے، اس لیے خبردار کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس چھینک کھانسی اور ڈراپلیٹس  کے علاوہ بات چیت کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نئی دستیاب تحقیق میں واضح ہوا ہے کہ مریضوں کے براہ راست سانس لینے کے ذریعے بھی جو ذرات ہوا میں پیدا ہوتے ہیں ان سے بھی یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔

بیماریوں پر قابو پانے اور روک تھام کے امریکی مرکز کے مطابق  وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص تک اس وقت پھیلتا ہے جب لوگوں کے درمیان فاصلہ 6 فٹ سے کم ہو، ایسے میں جب متاثرہ شخص کو کھانسی یا چھینک  آتی ہے تو اس کے ذرات کے ذریعے وائرس پھیلتا ہے۔

ڈاکٹر ہاروے فائن برگ نے اپنے خط سے بتایا کہ چین کے ایک اسپتال میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب ڈاکٹر ز اور نرسیں حفاظتی کٹس ہٹاتے ہیں،  جب فرش کی صفائی کی جاتی ہے  یا پھر طبی عملہ ادھر ادھر گھومتا ہے تو وائرس ہوا میں معلق ہو سکتا ہے اور پھر سانس لینے سے کسی بھی شخص کو متاثر کر سکتا ہے۔

اس حوالے سے امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ہاروے فائن برگ نے کہا کہ ایسی صورتحال میں جب وہ سامان خریدنے جائیں گے تو ماسک پہنیں گے لیکن وہ سرجیکل ماسک نہیں ہوگا بلکہ کسی بھی چیز سے منہ کو ڈھانپہ جا سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی کورونا وائرس ٹاسک فورس کے  اہم رکن ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکا میں وائرس کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے ماسک کے لازمی استعمال پر غور کیا جا رہا ہے۔ 

واضح رہے کہ کورونا وائرس چین سمیت دنیا کے 204 ممالک پر حملہ کر چکا ہے اور اس وقت امریکا اس کی شدید لپیٹ میں ہے جہاں اب تک 277,475 کیسز  سامنے آ چکے ہیں جب کہ 7 ہزار سے زائد اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔