13 اپریل ، 2020
ذہن کو ہر قسم کے تعصبات، خواہشات اور مفادات سے پاک کرکے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو تین تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔
پہلی تلخ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کا مسئلہ کنٹرول سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے تو ملک کے اندر آنے نہ دیا جاتا اور اگر ملک کے اندر آگیا تھا تو پہلے دن سے پوری یکسوئی کیساتھ کرفیو نما لاک ڈائون کیا جاتا اور پھر ہر ایک شعبے کیلئے ایس او پیز بنا کر باری باری کھول دیا جاتا لیکن ہماری حکومت کنفیوژن کا شکار رہی۔
اب ہم جس صورتحال سے دوچار ہونے والے ہیں اسکا مقابلہ صرف اور صرف ایسی جامع حکمتِ عملی سے کیا جا سکتا ہے جس میں ریاست کے ساتھ مل کر ہر مذہبی اور سیاسی جماعت اپنے اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کرے لیکن بدقسمتی سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عمران خان صاحب کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن سیاسی مفاہمت کی فضا پیدا نہیں کر سکتے۔
دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اقتدار سے قبل بھی ملک کی معیشت مثالی نہیں تھی لیکن اُمید تھی عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد باہر سے پیسہ اور سرمایہ لاکر ملکی معیشت کو چار چاند لگا دینگے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پتا چلا کہ انکے پاس معیشت کیلئے ٹیم ہے وژن اور نہ کوئی پلاننگ۔ انہوں نے ساری توجہ پکڑ دھکڑ، احتساب اور ٹیکس دینے والوں کی جیبوں سے مزید ٹیکس نکالنے پر مرکوز کی۔ جسکی وجہ سے الٹ نتیجہ نکلا اور معیشت کا پہیہ جام ہو گیا۔ سرمایہ اور ذہانت تیزی کیساتھ عمران خان کی حکومت میں باہر ہجرت کر گئیں۔ چنانچہ ہر صاحب الرائے شخص کی یہ رائے بن گئی ہے کہ عمران خان صاحب کی حکومت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔
اوپر سے کورونا کی وبا نازل ہو گئی جس نے پہلے سے تباہ حال معیشت کا مزید ستیاناس کردیا۔ یوں معیشت کی جو حالت ہے اور جو ہونے جارہی ہے، اس کا مقابلہ صرف اور صرف قومی مفاہمت اور ایک ایسی حکمت ِ عملی کے ذریعے ہو سکتا ہے کہ جس میں پاکستان کا ہر شہری، ہر جماعت اور ہر طبقہ اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرے لیکن یہاں پھر یہ مسئلہ ہے کہ عمران خان کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن قومی مفاہمت کی یہ فضا پیدا نہیں کر سکتے۔
تیسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق نیک نیتی سے یا پھر زرداری اور نواز شریف کے انتقام میں، دل خوش کن توقعات کا جو محل تعمیر کیا گیا تھا، وہ دھڑام سے گر گیا ہے۔ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے درجنوں وزرا اور سینکڑوں پی ٹی آئی کے وابستگان کو بھی یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ معاملہ خرابی اور ملک تباہی کی طرف جارہا ہے۔ حکمرانی دنیا کا سنجیدہ ترین کام ہے لیکن پاکستان میں اس وقت وہ یہاں کے غیرسنجیدہ ترین لوگوں کے سپرد ہوا ہے۔ نہ تحریک انصاف اس طرح کی چل رہی ہے جس طرح پارٹیاں چلا کرتی ہیں اور نہ حکومت اس طرح چل رہی ہے جس طرح کہ حکومتیں چلا کرتی ہیں۔
اب تو حکومتی ترجمان بھی اقرار کررہے ہیں کہ پارٹی اور حکومت کو آٹا اور شوگر مافیا نے یرغمال بنا دیا ہے اور جہانگیر ترین بھی اعتراف کرگئے کہ کس طرح ملک بھر کے روایتی سیاستدانوں (جو دراصل مختلف مافیاز کے نمائندے ہیں) کو انہوں نے پی ٹی آئی میں جمع کیا ہے۔ یوں اس وقت حکومت مختلف مافیاز کی مرکب بن گئی ہے۔ ایک اور خطرناک پہلو جسکی طرف دھیان نہیں ہے وہ بیرونِ ملک کی لابیاں ہیں جو اس حکومت میں گھسی ہوئی ہیں۔
یہاں امریکی لابی کے لوگ ہیں جو سی پیک میں رکاوٹیں ڈال اور چین کیساتھ تعلقات خراب کررہے ہیں۔ دوسری طرف چینی لابی کے لوگ ہیں۔ تیسری طرف ایرانی لابی ہے۔ چوتھی طرف سعودی لابی کی اپنی طاقت ہے۔ برطانوی لابی تو ماشاءاللہ۔ ہر معاملے پر یہ لابیاں ایک دوسرے کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہوتی ہیں۔ ایک لابی غالب آجاتی ہے تو وہ وزیراعظم اور ان کی پالیسیوں کا رخ ایک ملک کی طرف کردیتی ہے، دوسری غالب آجاتی ہے تو وہ وزیراعظم اور پالیسیوں کا رخ دوسری طرف موڑ دیتی ہے۔
اسی روش کی وجہ سے ہندوستان نے کشمیر کے محاذ پر جو کچھ کرنا تھا کرلیا اور ہماری حکومت آنی جانیوں کے سوا کچھ نہیں کر سکی کیونکہ دنیا کی کوئی حکومت ہماری قلا بازیوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ جم کر کھڑی ہونے کو تیار نہ ہوئی۔ اسی طرح پارٹی اور حکومت کے اندر ایک اور لڑائی مختلف گروپس کی ہے۔ پہلے جہانگیر ترین گروپ غالب تھا اور اب زلفی بخاری اور اسد عمر گروپ غالب آگیا اور غلبے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ جس گروپ کو بنی گالا کی سرپرستی حاصل ہوجاتی ہے، وہی مضبوط ہو جاتا ہے۔
جہانگیر ترین کو ٹھکانے لگانے کے بعد اب تو یہ اندرونی لڑائیاں مزید تیز ہو جائیں گی۔ یوں اب یہ بات یقینی ہے کہ عمران خان مزید اپنی گرفت مضبوط کر سکتے ہیں، اپنے مخالفین کو جیلوں کے اندر ڈال سکتے ہیں، احساس پروگرام اور ٹائیگر فورس جیسے تماشے لگا سکتے ہیں لیکن اس ملک کو لاحق خطرات اور گورننس کے اس کرائسس سے نہیں نکال سکتے۔
یوں اگر تعصبات، مفادات اور خواہشات کی عینک کو اتار کر صرف خوف خدا اور ملکی مفاد کو مدِنظر رکھ کر سوچا جائے تو اس وقت ملکی بقا کا ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہ ہے چند ماہ کیلئے قومی حکومت۔ ایک ایسی قومی حکومت جو سب کرداروں کے اتفاقِ رائے سے بنے۔ جس میں سب کرداروں کے اپنی اپنی ذمہ داری ہو۔ جسکا پہلا ٹاسک کورونا سے نمٹنا، دوسرا ٹاسک معیشت کو سنبھالا دینا اور ایک میثاقِ معیشت کو تیار کرنا، تیسرا ٹاسک انتخابی اصلاحات اور چوتھا کام نئے اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہو۔
سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے ہو اور کون کرے؟ زندگی رہی تو اسکا جواب پھر کبھی لیکن سردست اتنا بتا دوں کہ اس کیلئے بنیادی کردار حکومت کو نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں کو ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ کام تبھی ہو سکتا ہے کہ جب عمران خان اور طاقتور حلقوں کو فیس سیونگ دی جائے اور یہ کام صرف اپوزیشن ہی کر سکتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔