Time 17 اپریل ، 2020
بلاگ

ایک اوور سیز پاکستانی کا خط

فوٹو: فائل

عزت مآب، محترم وزیر اعظم صاحب۔ السلام علیکم

آج ماضی کی طرح ایک بار پھر مجھ جیسے اسی لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کے نام کورونا سے متاثرہ افراد کے لیے فنڈز بھجوانے کا آپ کا پیغام موصول ہوا۔

اس سے قبل بطور وزیر اعظم آپ کا پیغام ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ بھیجنے کے لیے بھی موصول ہوا تھاجس پر بھی مجھ سمیت لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں نے لبیک کہتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق فنڈز روانہ کیے تھے جبکہ اس سے قبل بھی وزیر اعظم بننے سے پہلے آپ کے پیغامات برائے شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی بھی ملتے رہے تھے جس کے لئے بھی مجھ سمیت لاکھوں اوورسیز پاکستانی فنڈز روانہ کر چکے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ آپ کے یہ منصوبے قوم کی بہترین خدمت کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔

محترم وزیر اعظم! آج میں اس خط کے ذریعے آپ کو ان اسی لاکھ اوورسیز پاکستانیوں میں سے 75لاکھ پاکستانیوں کو درپیش شدید مشکلات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن سے کورونا کی وبا کے دنوں میں یہ غریب الوطن دوچار ہیں۔

آپ بیرونِ ملک مشکل ترین حالات میں زندگی گزارنے والے ان پاکستانیوں کے حالات زندگی سے بھی آگاہی ہوسکے جو زندگی بھر بیرون ملک بھی تیسرے درجے کے شہری بن کر تیسرے درجے کی ملازمتیں کرکے اپنی خون پسینے کی کمائی سے قیمتی زرمبادلہ سے نہ صرف شوکت خانم فنڈ، نمل یونیورسٹی فنڈ، ڈیم فنڈ، کورونا فنڈ، ایٹم بم فنڈ، زلزلہ فنڈ اور سیلاب فنڈ بھجوانے کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ اور اہل خانہ کی بھی ڈالر اور یورو کی شکل میں ماہانہ ضروریات پوری کرتے رہے ہیں بلکہ ملک میں زرمبادلہ کی شدید قلت کو بھی پورا کرتے رہے،جبکہ ان سب خدمات کے صلے میں ان پاکستانیوں کو ٹائیگرز، شیر اور ببر شیر کے القابات کے سوا کچھ بھی نہیں ملا ہے۔

ماضی میں تو یہ صرف اوورسیز پاکستانی ہی کہلاتے تھے لیکن اب سیاسی جماعتوں نے ان نوے فیصد پاکستانیوں کو بھی سیاسی دھڑوں میں تقسیم کردیا ہے کوئی تحریک انصاف، تو کوئی نون لیگ تو کوئی پیپلز پارٹی کا رکن بن چکا ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ بیرونِ ملک بننے والے سیاسی دھڑوں کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کی اشرافیہ میں شامل نون لیگ والا اب پیپلز پارٹی کے غریب شخص کو ملازمت نہیں دیتا تو پیپلز پارٹی والا تحریک انصاف کے چاہنے والے کو ملازمت نہیں دیتا تو تحریک انصاف کی اشرافیہ میں شامل اوورسیز پاکستانی نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی طبقے کے پاکستانی کو ملازمت نہیں دیتا، غرض پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی سیاسی دھڑوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔

آپ سے گزارش ہے کہ ایک پیغام ایسا بھی جاری کریں جس میں اوورسیز میں تمام سیاسی جماعتوں کے خاتمے کا اعلان کریں جس میں ابتدا تحریک انصاف کے اوورسیز ونگ کے خاتمے سے کریں تاکہ اوورسیز پاکستانی سیاسی دھڑوں میں بٹنے کے بجائے ایک متحد پاکستانی کمیونٹی بن سکیں۔

محترم وزیر اعظم صاحب،کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے اس وقت جن معاشی مسائل سے اوورسیز پاکستانی دوچار ہیں اس کا اندازہ شاید آپ کے لیے کرنا بھی مشکل ہو، یقین جانیے عرب ممالک سے ہٹ کر یورپ، امریکہ، برطانیہ سمیت جاپان میں بھی نوے فیصد پاکستانی دہاڑی دار اور گھنٹوں پر کام کرنے والاطبقہ ہے جو گزشتہ ایک ماہ سے بے روزگار ہوچکا ہے، لیکن ان کے اخراجات اسی طرح قائم ہیں ان پاکستانیوں کو گھر کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے،راشن بھی خریدنا ہے، پانی،بجلی،گیس اور فون کے بل بھی ادا کرنے ہیں، پاکستان میں اپنے اہل خانہ کیلئے ماہانہ اخراجات بھی بھجوانے ہیں اور آپ کے پیغام کے بعد کورونا فنڈ میں بھی رقم روانہ کرنی ہے۔

لیکن اس مشکل وقت میں ریاست پاکستان نے اپنے ان لاکھوں پاکستانیوں کو پاکستان لے جانے سے انکار کردیا ہے، یہ پاکستانی کام نہ ہونے کے سبب معاشی، اور کورونا کے بڑھتے ہوئے خطرے کے باعث جانی طور پر بھی زندگی کے خطرے کا شکار ہیں،ان کی آخری خواہش اپنے ملک میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ آخری وقت گزارنے کی ہے لیکن ریاست کو ان کے فنڈز کی ضرورت ہے ان کی پروا نہیں ہے۔ وزیر اعظم صاحب میرے کم لکھے کو زیادہ جانئے۔

حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ مغربی ممالک کی حکومتیں اپنے ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کو ماسک فراہم کرنے سے قاصر ہیں،ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکر ہر دن اپنا آخری دن سمجھ کر اسپتال جاتے ہیں،جاپان میں بھوک اور فاقوں کے ڈر سے جاپانی شہری ملازمت سے چھٹی نہیں کرتے،فلاحی ریاستیں بھی اپنے شہریوں کا خیال رکھنے سے قاصر ہیں، اس وقت أوورسیز پاکستانی محصور پاکستانی بن چکے ہیں۔

آپ بھی دنیا بھر میں محصور پاکستانیوں کا خیال کریں،انھیں دلاسہ دیں، انھیں اپنا شہری تسلیم کریں، انھیں لانے کی کوششوں کا یقین دلائیں،ان کے ووٹوں اور نوٹوں سے حکومت کے قیام کے بعد ان کے موبائل فون لانے پر پابندی، گاڑیاں بھجوانے پر پابندی، اب ان کے واپس آنے پر پابندی، لیکن فنڈز منگوانے کے لیے پیغام انصاف نہیں ہے۔ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔

اپنی اور قوم کی صحت کا خیال رکھیں، زندگی رہی تو پھر بات ہوگی۔ آپ کا غریب اوورسیز پاکستانی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔