پاکستان
Time 18 اپریل ، 2020

میر شکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ میں 28 اپریل تک توسیع

لاہور کی احتساب عدالت نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید10 روز  کی توسیع کرتے ہوئے انہیں 28 اپریل تک نیب کی تحویل میں دے دیا۔

میر شکیل الرحمان پرائیویٹ پراپرٹی کی خریداری کے 34 سال پرانے معاملے میں 37 دن سے نیب کی حراست میں ہیں۔

میر شکیل الرحمان کو جسمانی ریمانڈ کی مدت تیسری بار ختم ہونے پر احتساب عدالت کے جج جوادالحسن کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

دوران سماعت نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر عاصم ممتاز کی جانب سے میرشکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 15 روز کی توسیع کی استدعا کی گئی، جس پر میر شکیل کے وکیل نے کہا کہ مجھے ابھی ریمانڈ کی درخواست کی کاپی ملی ہے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی فراہمی پر تیاری کے لیے وقت مانگا جس پر کچھ دیر کے لیے سماعت ملتوی کر دی گئی۔

بعدازاں جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میر شکیل الرحمان کے خلاف نیب نے مختلف محکموں سے ریکارڈ طلب کر رکھا ہے، سرکاری محکموں سے ریکارڈ طلب کرنے کے کچھ ایس او پیز ہوتے ہیں، جیسے ہی سرکاری محکموں سے ریکارڈ ملا تو تفتیش مزید آگے بڑھے گی۔

عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اب نیب کو کس کس جگہ سے ریکارڈ ملنا باقی ہے، جس پر عاصم ممتاز نے بتایا کہ ایل ڈی اے سے کچھ مزید ریکارڈ کی درخواست کی ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ایل ڈی اے کےاجلاس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف اور ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں سعید موجود تھے، اجلاس میں نواز شریف نے ہمایوں سعید کو حکم دیا تھا کہ میرشکیل الرحمان کی درخواست پرعمل کیا جائے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مزید دو گواہان سے میر شکیل الرحمان کی بالمشافہ ملاقات کروانی ہے لہذا جسمانی ریمانڈ بڑھایا جائے۔

نیب حکام لاک ڈاؤن کا بہانا کر کے عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں

میر شکیل الرحمان کے وکیل ایڈوکیٹ امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ بین الاقوامی میڈیا دیکھ رہا ہے کہ نیب کیا کر رہا ہے، نیب پر تنقید کرنا ہمارا حق ہے۔

ایڈوکیٹ امجد پرویز کا کہنا تھا کہ تمام ریکارڈ نیب کے پاس ہے، اب لاک ڈاؤن کا بہانا بنا کرنیب حکام عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میر شکیل الرحمان نے نیب حکام کے ساتھ تفتیش میں تعاون کیا، میر شکیل الرحمان کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کرکے پرانا جھوٹا کیس ڈالا گیا، میر شکیل کو نیب حکام نے جب بھی شامل تفتیش ہونے کا نوٹس دیا وہ پیش ہوئے، کال اپ نوٹس پر لوگ نیب نہیں جاتے مگر میر شکیل الرحمان نیب میں پیش ہوئے۔

وکیل صفائی نے نیب کی جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نیب حکام نے پہلا جسمانی ریمانڈ بھی انہیں گراؤنڈ ز پر مانگا تھا، نیب حکام عدالتی وقت کا ضیاع کررہے ہیں۔

ایڈوکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ  نیب حکام نے اس وقت کے تمام افسران کی میر شکیل الرحمان سے ملاقات کروا چکے ہیں، میر شکیل الرحمان سے تمام افسران کی ملاقات کے بعد نیب کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میر شکیل الرحمان کا تمام ریکارڈ پہلے دن سے تفتیشی افسر کے پاس موجود ہے، اس اسٹیج پر نیب کو مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔

میر شکیل کی سلاخوں کے پیچھے تصویر کھینچ کر من پسند میڈیا ہاؤسز کو دی گئی

میر شکیل الرحمان کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ان کے مؤکل کی سرکاری کیمرہ مین کی مدد سے سلاخوں کے پیچھے کھڑا کر کے تصویر بنوائی گئی، نیب حکام نے وہ تصویر اپنے من پسند میڈیا ہاؤسز کو دی جو کہ میر شکیل الرحمان کے مخالف ہیں۔

امجدپرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ احد چیمہ کی گرفتاری کی تصویر جاری کرنے پرعدالت عالیہ کا نیب کے خلاف فیصلہ موجود ہے۔

کبھی عدالت پر اثر انداز ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے

وکیل صفائی نے کہا کہ عدالت کے خلاف کبھی کوئی خبر نہیں چلائی، اگر کچھ ایسا ہوا تو میر شکیل الرحمان سے پہلے میں اپنے آپ کو سرنڈر کروں گا۔ 

انہوں نے کہا کہ عدالت کی عزت کرتے ہیں اور کبھی سماعت پر اثر انداز ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے، عدالت کی عزت اور تقدیس کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم کرتے ہیں۔

احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا۔

عدالت نے میر شکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 10 روز کی توسیع کرتے ہوئے انہیں 28 اپریل تک نیب کی تحویل میں دے دیا۔

کیس کا پس منظر 

میر شکیل الرحمان نے 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر نیب نے انھیں 5 مارچ کو طلب کیا، میرشکیل الرحمان نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔

نیب نے 12 مارچ کو دوبارہ بلایا، میر شکیل انکوائری کے لیے پیش ہوئے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔

لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لیے دائرکی گئیں، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں :