20 اپریل ، 2020
مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا جبکہ سیاسیات کے استاد میکائولی کا کہنا تھا کہ سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اقتدار کے دوست اور‘ اپوزیشن کے اور ہوتے ہیں۔
حالیہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بڑوں کی کہی ہوئی باتیں حرف بحرف سچ نظر آتی ہیں، کل کے سیاسی دوست آج کے سیاسی حریفوں میں سب سے آگے نظر آتے ہیں اور جو کل تک ہمسفر نہ تھے وہ آج منزل پر شانہ بشانہ کھڑے استہزائیہ انداز سے مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں، جو ماضی میں الزام عائد کرنے والوں کی صف میں نمایاں تھے، وہ آج دفاع کرنے والوں کی کمان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آٹا اور چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وہی جہانگیر ترین آج اپنے گہرے دوست عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہ ہونے کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں جن سے مشاورت کئے بغیر خان صاحب کسی رہنما کو تحریک انصاف میں شامل نہیں کرتے تھے۔ جس نے دوستی پر اربوں روپے دان کرتے ہوئے کبھی حساب کتاب نہیں رکھا تھا، آج وہ اپنے اوپر 56کروڑ روپے کی سبسڈی لینے کے الزم کی وضاحت کرتے ہوئے دھرنے کی پہلی رات پر لاکھوں روپے کے اخراجات بھی گنوا رہا ہے۔
جس نے ایک ایک اینٹ چن کر تحریک انصاف کے اقتدار کے محل کو کھڑا کیا آج حالات کی ستم ظریفی نے اسے اس حال تک پہنچا دیا کہ ڈاکٹر شہباز گل جیسے نومولود ترجمان اسے اعزازی عہدوں سے محروم کرنے کے بیانات دینے لگے ہیں۔
جیسا شروع میں عرض کیا کہ سیاست کے اس بے رحم کھیل میں کون اپنا کب پرایا بن جائے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حالیہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جو ذوالفقار مرزا، آصف علی زرداری کی ناک کا بال ہوا کرتا تھا وہ ایک دن خم ٹھونک کر ان کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، جو مصطفیٰ کمال قائد تحریک کو اپنا مائی باپ کہتا تھا وہی اسے قاتل، وطن دشمن اور غدار جیسے القابات سے نوازتا ہے، جو چوہدری نثار تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک نواز شریف کا سایہ بن کر ساتھ رہتا تھا، جسے مسلم لیگ نون میں نواز شریف کے بعد طاقتور ترین شخص تصور کیا جاتا تھا آج ن لیگی اس کا نام تک لینے کے روادار نہیں ہیں۔
وہ بابر اعوان جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو عدالتی قتل ثابت کرنے کے لئے وفاقی وزارت چھوڑ دیتا تھا، آج وہ کپتان کے ہاتھ پہ بیعت کرنے کے بعد اسی بھٹو کے وارثوں پر سخت تنقید کرتا نظر آتا ہے، چیئرمین تحریک انصاف جن کو چور ڈاکو قرار دیا کرتے تھے، بعد میں انہی کی مدد سے پنجاب میں حکومت قائم کرتے ہیں، جس ایم کیو ایم کے خلاف وہ لندن میں جا کر مقدمات قائم کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے آج وہ انہی کی کابینہ کا حصہ ہیں، جسے چپڑاسی رکھنے کو تیار نہ تھے آج وہ ان کا سب سے اہم ایڈوائزر ہے۔
ایسی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاست میں دوست مستقل ہوتے ہیں نہ دشمن، اسی تناظر میں جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ دوری کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ عمران خان جو اب وزیراعظم پاکستان ہیں ان کے اور جہانگیر ترین کے تعلقات میں آنے والی یہ خلیج پاٹنا کیا ممکن ہوگا یا یہ مزید وسیع ہو جائے گی؟
بیان کردہ مثالوں کی روشنی میں یقیناً یہ قیافہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب دونوں کے درمیان تعلقات میں وہ پہلے جیسے گرمجوشی آ سکتی ہے اور نہ ہی اعتماد کا وہ رشتہ ازسر نو قائم ہو سکتا ہے، یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ کپتان کی حکومت پر اتنی بھاری ’’سرمایہ کاری‘‘ کرنے کے باوجود ان کے دامن پہ جو داغ لگائے گئے ہیں وہ انہیں چھپا کر خاموشی سبے بیٹھ جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کپتان کو اپنی اہمیت جتانے کے لئے جہانگیر ترین وہ تمام سیاسی پتے کھیلیں گے جو بدستور ان کی مٹھی میں ہیں، جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین کا سیاسی قلعہ بہت مضبوط ہے اور چوہدری برادران سے گہرے تعلقات کی وجہ سے موجودہ سیٹ اَپ میں جہاں ان کی پوزیشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہاں پنجاب اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کی نشستوں کا معمولی فرق بھی تحریک انصاف کے لئے کسی بھی وقت ڈرائونا خواب بن سکتا ہے۔
پی ٹی آئی اور اس کے ’’خیر خواہوں‘‘ کو اس کا بخوبی ادراک ہے، اسی لئے پیش بندی کے طور پر پہلے خسرو بختیار کا صرف قلمدان تبدیل کر کے انہیں جہانگیر ترین سے الگ کرنے کی چال چلی گئی اور پھر ترین گروپ کے اہم ساتھی عبد العلیم خان کو فوری طور پر سینئر وزیر بنا دیا گیا ہے؛ تاہم اقتدار کے ایوانوں میں پس پردہ ہونے والی تیاریوں سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ سیاسی بساط بچھ چکی ہے اور ہر فریق نے اپنی چال چلنے کے لئے مہرے ترتیب دینا شروع کر دیے ہیں۔
پھر بھی کسی کو شک ہے کہ یہ سب چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے والی بات ہے تو وہ شہباز شریف کی لندن واپسی، کورونا سے نمٹنے کے بہانے متحرک ہونے، خواجہ برادران سے ملاقات کرنے اور اگلے ہی روز اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کے لئے خواجہ برادران کا ان کے گھر پہنچنے کی کڑیوں کو ملا لے۔
اس کے ساتھ ہی رانا ثناء اللہ، سردار ایاز صادق اور رانا تنویر کے حکومتی ارکانِ اسمبلی سے رابطوں اور جہانگیر ترین کی جنوبی پنجاب کے ایم پی ایز کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں جانکاری حاصل کر لے تو تصویر کافی حد تک واضح ہو جائے گی، قارئین ان کڑیوں کو ملاتے ہوئے میکائولی کا یہ قول ضرور ذہن میں رکھیں کہ سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔