20 اپریل ، 2020
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ وفاق ہو یا صوبائی حکومتیں، سب جگہ شفافیت کا مسئلہ ہے، زکٰوۃ کے پیسے سے کس طرح تنخواہیں اور مراعات دی جا سکتی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس سے متعلق حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چاروں صوبوں اور وزرات صحت کی رپورٹس عدالت میں جمع کروائی گئیں جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا جواب کہاں ہے؟
سماعت کے سلسلے میں وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل خالد جاوید عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے بتایا کہ وزارت صحت اور این ڈی ایم اے نے الگ الگ جواب دیے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ محکمہ زکوٰۃ نے بھی کوئی معلومات نہیں دی، محکمہ زکوٰۃ کے جواب میں صرف قانون بتایا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت زکوٰۃ فنڈ صوبوں کو دیتی ہے لیکن صوبائی حکومتیں زکوٰۃ مستحقین تک نہیں پہنچاتیں اور زکٰوۃ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰۃ جمع کی، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا اس لیے وفاق حکومت کو زکوٰۃ فنڈ کا آڈٹ کروانا چاہیے کیونکہ زکوٰۃ فنڈ کے آڈٹ سے صوبائی خودمختاری متاثر نہیں ہو گی۔
زکوۃ کی تفصیلات نہ فراہم کرنے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہا کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں، سندھ حکومت ہو یا کسی اور صوبے کی حکومت، مسئلہ شفافیت کا ہے، رپورٹ میں صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی، تفصیلات نہیں فراہم کی گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے، افسوس ہے کہ بیت المال کا بھی بڑا حصہ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ زکوٰۃ کے پیسے سے دفتری امور نہیں چلائے جا سکتے، زکوٰۃ کے پیسے سے لوگوں کو جہاز پر سفر نہیں کروایا جا سکتا، حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ زکوٰۃ کے پیسے ٹی اے ڈی اے پر خرچ نہ ہوں بلکہ اصل لوگوں پر خرچ ہوں۔
علاوہ ازیں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈی جی بیت المال بھی زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں، آخر مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہییں اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ جو قوانین صوبوں نے بنائے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے سوال کیا کہ اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری میں 16قرنطینہ سینٹرز قائم ہیں، ان میں ہوٹلز، حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل بلڈنگ اور پاک چائنا سینٹر شامل ہیں۔
سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ بیرون ملک سے آئے مسافروں کو 24گھنٹے ان قرنطینہ سنٹرز میں رکھا جاتا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جا رہے ہیں، جو افراد پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قرنطینہ کے لیے ہوٹلز کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا ہے، تمام ہوٹلز کو قرنطینہ بنانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟
جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں، وہاں کوئی سہولیات نہیں، اکثر افراد شکایات کر رہے ہیں۔
اس دوران سیکریٹری صحت نے جواب دیا کہ حاجی کیمپ کے قرنظینہ سینٹر میں سہولیات موجود ہیں، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ خود حاجی کیمپ کے قرنظینہ سینٹر گئے ہیں؟
سیکرٹری صحت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں خود حاجی کیمپ کے قرنظینہ سینٹر نہیں گیا، جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ آپ وہاں کیوں نہیں گئے؟
بعدازاں چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کو حکم دیا کہ آپ آج خود حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر جائیں اور دوسرے قرنطینہ مراکز کا بھی دورہ کریں۔
جسٹس گلزارا حمد نے ریمارکس دیے کہ لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر اسکرینگ سے بچ نکلتے ہیں، مردان میں ایک شخص نے دو پیناڈول کھائی اور وہ اسکریننگ سے بچ نکلا۔
معزز جج کو جواب دیتے ہوئے سیکرٹری صحت کا کہنا تھا کہ اسی لیے اب 24گھنٹے قرنطینہ میں رکھ رہے ہیں۔
بعدازاں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان قرنطینہ سینٹرز میں رکھے جانے کا خرچ کون برداشت کرتا ہے اس پر سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ حکومت اس کا خرچ برداشت کرتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سندھ حکومت کی رپورٹ پر ریمارکس دیے کہ 8 ارب روپے کے اعداو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا، کسی کو علم نہیں ہوا اور سندھ حکومت نے ایک ارب روپے کا راشن بانٹ دیا، سندھ حکومت تو چھوٹا سے کام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے۔
سماعت کے سلسلے میں سندھ حکومت کی جانب سے موجود ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب شاہ نے جواب دیا کہ کورونا پر سیاست نہیں کرنا چاہتے اس لیے تصویریں نہیں بنا رہے، صبح چار سے سات بجے تک گھرگھر راشن تقسیم کیا جاتا ہے، جس گھر میں راشن دیا گیا انہیں تو معلوم ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ سنا ہے آپ نے زائدالمعیاد آٹا اور چینی تقسیم کی، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، پتہ نہیں ایسی باتیں کون پھیلاتا ہے۔
پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ تقسیم کی گئی اشیا یوٹیلٹی اسٹورز سے خریدی ہیں لہذا سپریم کورٹ کو فراہم کی گئی تمام معلومات درست ہیں۔
اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں راشن تقسیم کے لیے 22 ہزار گھروں کا تعین کیسے کیا گیا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ یونین کونسلز کی کمیٹیاں مستحقین کا چناؤ کرتی ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ سندھ سے متعلق باتیں بلاوجہ تو نہیں بنتی، کوئی تو وجہ ہے آخر ہمارے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں؟
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ معلوم نہیں، 30 مارچ سے راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے، ایک بیگ میں 10 دن کا راشن ہوتا ہے اور اب تو سندھ میں معاشی سرگرمیاں شروع ہونے جا رہی ہیں۔
سندھ میں زکٰوۃ تقسیم سے متعلق جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کہ 50 کروڑ 69 لاکھ روپے کا سوال ہے، یہ کن افراد کو ادا کیے گئے؟
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ میں 569 ملین روپے 94 ہزار سے زائد افراد کو دیے گئے ہیں، زکوٰۃ فنڈز سے تمام رقم مستحقین کو ہی دی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ زکوٰہ فنڈ کس کو مل رہے ہیں یہ ایک معمہ ہے۔
معزز جج نے استفسار کیا کہ کیا زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ دینا شرعی طور پر جائز ہے؟ کیا زکوٰۃ کے پیسے سے انتظامی اخراجات کرنا جائز ہے، کیا محکمہ زکوٰۃ کا بنایا گیا قانون شریعت سے متصادم نہیں؟
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں فی کس 6 ہزار روپے زکوٰۃ دی گئی ہے اور ان ہی افراد کو دی گئی جنہیں ہر سال دی جاتی ہے۔
بعدازاں جسٹس سجاد علی شاہ نے سیکرٹری صحت سندھ سے پوچھا کہ سندھ حکومت کے لیے طبی آلات کی خریداری کون کر رہا ہے؟ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ سول سوسائٹی کےنمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے۔
اس پر مداخلت کرتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کو ڈالنے کا مقصد بے جا الزامات سے بچنا تھا تاہم سندھ میں صرف مقامی تیار کردہ کٹ استعمال ہوں گی۔
سندھ کی صورتحال بتاتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ 12 اپریل تک 234 کورونا کیسز 11 یونین کونسل سے نکلے تھے، سیل کی گئی 11 یونین کونسل کی کل آبادی 6 لاکھ 74ہزار سے زائد ہے اس لیے 168 افراد کو گھروں میں ہی قرنطینہ کیا گیا ہے جب کہ 45 مریض اسپتال میں ہیں اور تمام کی حالت تشویشناک ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مردان کی یوسی منگاہ کی کیا صورت حال ہے جس پر ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے بتایا کہ یو سی منگاہ کو کھول دیا گیاہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ طورخم بارڈر سے آنے والوں کو کیسے اور کہاں رکھا جائے گا؟
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ طورخم بارڈر پر پھنسے پاکستانیوں کو واپس آنے دیا جائے گا، اب تک ڈھائی ہزار افراد واپس آئے ہیں، طورخم سے آنے والوں کو قرنطینہ کیا جا رہا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ چمن اور تفتان بارڈر پر قرنطینہ مراکز قائم کر دیے گئے ہیں، قلعہ عبداللہ میں 800 افراد کے لیے ٹینٹ سٹی قائم کر دی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بلوچستان حکومت کی رپورٹ میں بھی شفافیت کا مسئلہ ہے جس پر ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ صرف راشن دے رہے ہیں، کسی کو نقد امداد نہیں دی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے 21 ہزار جب کہ این جی اوز نے 26 ہزار خاندانوں کو راشن دیا۔
سپریم نے زکوٰة کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق صوبوں اور آئی سی ٹی سے رپورٹ طلب کر لی۔
عدالت نے بیت المال کی شفافیت سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ چاروں صوبے اور وفاق آئندہ سماعت سے قبل کورونا وائرس پر اقدامات کے حوالے سے پیش رفت رپورٹ جمع کرائیں۔