21 اپریل ، 2020
پاکستان میں تیز ترترقی کے بھرپور موجود پوٹینشل کے باوجود متعدد بار ترقی کی رفتار میں تیزی آنے، رک جانے اور پھر ریورس میں جا کر بحرانی کیفیت میں آنے اور اس علت میں تسلسل کی جو وجوہات موجود رہیں، وہ اب تقریباً مکمل بے نقاب ہو چکی ہیں۔
یقینا ًاس کے بڑے ذمہ دار ملک کی مختلف النوع حکومتیں اور ان کے بڑے بینی فشری لیکن محدود طبقات ہی رہے جو سب میڈیا کے مجموعی ایجنڈے کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت کے حامل رہے۔
لیکن دلچسپی اور ملکی میڈیا کے مجموعی کردار کے حوالے سے قابل اطمینان امر یہ ہے کہ یہ پاکستانی مین اسٹریم میڈیا ہی ہے جس نے بالآخر اپنے مجموعی ایجنڈے میں حکومت اور اس کے بینی فشری چند محدود بااثر طبقات کی اسی ایجنڈا سازی کا اثر قبول کرنے کے باوجود، ان تمام وجوہات کو بڑی جرأت بہت پیشہ ورانہ انداز اور تسلسل کے ساتھ بے نقاب کرنے کا جو ایجنڈا اختیار کیا۔
اس کے نتیجے میں سرکاری ریاستی اداروں، پارلیمان، انتظامیہ،لوئر جوڈیشری میں موجود نااہلیت، کرپشن اور خلاف آئین و قانون بیڈ گورننس کی مختلف اقسام کو نیوز ایجنڈے میں شامل کر کے اس کا کمال فالواَپ جاری رکھا، یہ سلسلہ بڑے تواتر کے ساتھ تو وکلا کی قومی اور عوامی بن جانے والی تحریک سے شروع ہوا اور آنے والے بدترین جمہوری عشرے میں احتساب، جوڈیشل ایکٹیوازم، کرپشن کی تمام اقسام کو بے نقاب کرنے والی تحقیقی رپورٹنگ، ملکی میڈیا کے ایجنڈے میں حکومت اور اس کے بینی فشری معاشرے کے طاقتور، با اختیار لیکن محدود طبقات کے گٹھ جوڑ اور ان کے بنائے اسٹیٹس کو کی اصلیت کو تمام تر ثبوتوں اور اختیار کیے گئے۔
حربوں کی رپورٹنگ کا ایسا سلسلہ چلا کہ پاناما لیکس، جس کو پاکستان میں بے نقاب کرنے کا اعزاز صرف اور صرف جنگ گروپ کو حاصل ہوا، واقعات میں ابلاغ عامہ کے طالبعلم اور استاد ہر دو حیثیتوں میں ایسے ملکی اور غیر ملکی تمام میڈیا اسکالرز، محققین اور ناقدین جو پاکستانی میڈیا کے ایجنڈے، پروفیشنلزم اور اس میں مشرف دور اور اس کے بعد ’’بدترین جمہوریت‘‘ بدترین گورننس کے حامل عشرے (2008-18) میں پاکستانی میڈیا کے انقلابی پوزیشن اختیار کرنے پر تحقیقاتی مقالوں کا سلسلہ شروع کریں تو ان سب ریسرچ پیپرز میں ملکی میڈیا کی اس انقلاب آفریں پروفیشنل پوزیشن، جو ریگولر ایجنڈے میں تبدیل ہوئی، کے Genesis (پیدائش کا جراثیم) جیو اور جنگ ؍دی نیوز کی ہائی پروفیشنل رپورٹنگ اور اس کے فالواپ میں کرنٹ افیئرز کے اداریوں، کالموں، فالواپ نیوز رپورٹنگ، کارٹون اور فیچر نگاری وغیرہ میں ہی ملیں گے اور یہ اٹل اور ہارڈ فیکٹ تمام مجوزہ تحقیقی مقالوں کا ایک بڑا Conclusion (حاصل) ہو گا۔
پاکستانی صحافت میں اولین قومی ضرورت کا عکاس یہ کارِ عظیم کوئی ہوا میں نہیں ہوا۔ یہ مکمل شعوری کوشش سے اختیار کی گئی وہ انقلابی پروفیشنل پوزیشن تھی جو ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی اسٹیٹس کے خلاف تازہ ذہنی بالادستی، احتساب پر مبنی جمہوری عمل اور گورننس کی مانیٹرنگ اینڈ رپورٹ بیک کی سوچ اور اپروچ سے نکلی۔
پھر انہیں اِس دور میں صحافت کی جو آزادی ملی اور انہوں نے اپنی منجھی ہوئی پروفیشنل ٹیم کو بغیر کسی مصلحت اور مداخلت کے اس شیئرڈ پالیسی کو جو انہوں نے اپنی سینئر ٹیم، مشیروں اور قومی ضرورتوں کے احساس کے امتزاج سے بنائی، بڑے انہماک سے اختیار کرایا۔
ایک سے بڑھ کر ایک وائٹ کالر کرائم کی نیوز اسٹوریز کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے ہی تمام بڑے معاصر ٹی وی چینلز اور اخبارات کو جنگ گروپ کی اس عظیم پیشہ ورانہ کوشش کی کامیاب تقلید کو اپنا دائرہ قارئین و ناظرین تک بڑھانے کا ذریعہ نہیں بنایا؟ جی جناب! ایسا ہوا، میری تجویز (دعوتِ تحقیق) پر ہمارے میڈیا اسکالرز متوجہ ہوئے اور انہوں نے یہ کام ایسے ہی شروع کیا جیسا کہ تجویز کیا گیا ہے، تو یہ سب کچھ تحقیقی مفروضہ نہیں، تحقیقی نتیجے کے طور آشکار ہو گا اور اس میں میر شکیل الرحمٰن سرخرو ہو کر نکلیں گے، جنہوں نے اپنی کاروباری سوچ کو کبھی چھپایا نہیں اور بہت کچھ قوم اور میڈیا انڈسٹری کو دے کر جس طرح پیشہ ورانہ اختراعی انداز میں میڈیا انڈسٹری کو صرف انڈسٹری کے طور نہیں بلکہ مکمل قومی اور جمہوری مزاج سے چلایا، اسے ہماری صحافتی تاریخ میں نظرانداز کیا جا سکے گا؟
یا ان کی بلاجواز اورغیر قانونی گرفتاری سے پہلے ہی اپنی بنتی ساکھ کو سنبھالنے میں ناکام ’’نیب‘‘ بے نقاب نہیں ہو گیا؟ کہ میڈیا میں ناقابل تردید وناقابل ضاحت ہر دو حوالوں سے ’’نیب‘‘ جس طرح خود قابل احتساب ٹھہرا ہے، میر شکیل الرحمٰن کی 1970کی دہائی کے اسٹائل میں گرفتاری سے وہ اپنی پوزیشن کی کوئی بھی قابل قبول وضاحت کرنے کی پوزیشن میں رہ گیا ہے؟
جتنے بڑے ادارے اور جتنے زیادہ ذمہ دار، غلطیاں بھی اسی حجم اور نوعیت کی ہوتی ہیں، جتنے بڑے کاموں اور گیمز میں یہ ادارے مصروف عمل ہوتے ہیں۔ ’’نیب‘‘ کی حرارکی، وزیراعظم اور دیگر متعلقین، جاری حساس ترین حالات حاضرہ کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے غور فرمائیں کہ میڈیا نے مکمل پروفیشنل اپروچ، پوری ذمہ داری اور قومی ضرورتوں کے مطابق جس طرح نیم مردہ ’’نیب‘‘ اور اس کے کام ’’احتساب‘‘ کو ایک بڑا اپنا ہی نہیں قومی ایجنڈا بنانے میں کردار ادا کیا، اس میں یہ گنجائش ہے کہ ’’نیب‘‘ جو عوام کے زاویہ نگاہ میں کرپشن کے بڑے بڑے مضبوط مقدمات پر اپنی کارکردگی دکھانے میں صفر رہا، وہ میرشکیل الرحمٰن پر 70 اسٹائل مقدمے میں بھی نہیں فقط الزام اور کاروباری رقابت کے تناظر میں کسی روایتی شکایت، درخواست پر پورے میڈیا ہائوس کو ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا کر دے اور اٹھائے گئے سوالوں کا کوئی جواب دے پائے، نہ رائے عامہ کو اہمیت دے۔
عمران خان، جو احتساب کے ایجنڈے پر برسراقتدار آئے، کی یادداشت کے لئے، 1996ء میں جب آپ نے احتساب کی پہلی صدا بلند کی تھی، منتخب حکومت کے دور میں جنگ گروپ ’احتساب‘ کی رسوا ہو جانے والی انتقامی کارروائی میں بند ہوتے ہوتے نہ ہو سکا۔ مشرف دور میں انتقامی کارروائی نے جیو انگلش بند کر دیا، جس کی ضرورت سرحدوں سے باہر، آنے والے کتنے ہی مواقع پر شدت سے محسوس ہوئی اور اب آپ کے ماتحت ’’نیب‘‘ جو کچھ کر رہا ہے، میڈیا نے اس کا اتنا امیج بنایا، یہ اتنا ہی خود پر گرانے پر تلا ہوا نہیں؟ یہ کیسی گورننس ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔