Time 22 اپریل ، 2020
پاکستان

کورونا کے باعث پاکستان میں سیکڑوں اموات کا خدشہ

کراچی سمیت پاکستان میں سیکڑوں اموات کا خدشہ—فوٹو فائل/اے ایف پی

کراچی: پاکستان سمیت برطانیہ اور سعودی عرب کے نامور مسلمان ماہرین صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر  رمضان میں باجماعت نمازیں اور تراویح پڑھانے پر  اصرار جاری رکھا گیا تو  پاکستان میں کورونا وائرس سے سیکڑوں اموات ہو سکتی ہیں۔

مساجد میں نماز پڑھنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 50 سال سے زائد ہوتی ہیں جو کہ کورونا وائرس کے حملہ کا سب سے آسان شکار ہوسکتے ہیں، رمضان میں باجماعت نماز اور تراویح کے اجتماعات کے نتیجے میں پاکستان کے کمزور نظام صحت پر ایسا دباؤ پڑ سکتا ہے کہ وہ بالکل ہی بیٹھ جائے۔

علماء سے گزارش ہے کہ وہ باجماعت نمازوں کے فیصلے پر نظرثانی کریں

 مساجد میں باجماعت نمازوں کے نتیجے میں کرونا وائرس پھیلنے اور غیر معمولی اموات کی وجہ سے  پاکستان، اسلام اور مسلمانوں کو شدید بدنامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لیے علماء سے گزارش ہے کہ وہ باجماعت نمازوں کے فیصلے پر نظرثانی کریں اور لوگوں کو گھروں پر نماز پڑھنے کی ترغیب دیں۔

ان خدشات کا اظہار پاکستان، برطانیہ اور سعودی عرب کے نامور ماہرین صحت نے پاکستانی علماء، حکومت پاکستان اور ملک کی تاجر برادری کو منگل کے روز لکھے گئے ایک خط میں کیا۔

خط لکھنے والے ڈاکٹروں میں ڈاکٹر عبدالباری خان کراچی، ڈاکٹر فیصل محمود کراچی، ڈاکٹر خرم خان لندن، ڈاکٹر شیمویل اشرف کراچی، ڈاکٹر سعد خالد نیاز کراچی، ڈاکٹر عبدالباسط کراچی، ڈاکٹر رضی محمد میر پور خاص، ڈاکٹر حنیف چٹنی کراچی، ڈاکٹر زاہد جمال کراچی، ڈاکٹر فرید شاہ مدینہ منورہ، ڈاکٹر یحییٰ چاولہ کراچی، ڈاکٹر مغیث مکہ مکرمہ اور ڈاکٹر رضا سید کراچی سے شامل ہیں۔

 بین الاقوامی شہرت کے حامل ان ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ وہ COVID-19 کی شکل میں ایک نظر نہ آنے والے لیکن جان لیوا دشمن سے نمٹنے کے لیے اتفاق رائے قائم کرنے پر وہ دل کی گہرایوں سے علماء کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں!

 ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت یہ نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک ایسا وقت ہے جو کہ معلوم تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا۔

ماہرین کی جانب سے تحفظات

"بحیثیت ڈاکٹرز، ہم کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کرنے میں صف اول میں ہیں، جو کہ ایک معمولی سی بیماری سے تیزی سے مہلک بیماری میں بدل سکتی ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ حکومت اور علماء کونسل کے مابین جو معاہدہ ہوا وہ نسبتاً مضبوط اصولوں پر مبنی تھا، تاہم ہمارے پاس ابتدائی مشاہدات پر مبنی چند لیکن مضبوط تحفظات ہیں، جن کو ہم اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں"۔

ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ ہماری مساجد میں عام طور پر 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگ سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور مساجد ان ہی نمازیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ پچھلے  48 گھنٹوں میں کچھ تصاویر اور ویڈیوز منظر عام پر آئے ہیں جن میں یہ واضح طور پہ دیکھا گیا ہے کہ نماز میں شرکت کرنے والے 80 فیصد سے زیادہ لوگ واقعی 50 سال سے زیادہ عمر کے تھے، حقیقت میں زیادہ تر کی عمر ، 60 یا 80 کے پیٹے میں معلوم ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مشاہدے کی توقع کی جا رہی تھی کیونکہ جن لوگوں نے ساری زندگی مسجد جا کر نماز پڑھنے میں عزم اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، انہیں مساجد کھلنے کے بعد مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنا مشکل ہوگا۔

 ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ واضح طور پر اس کے نتیجے میں عوام میں سے  سب سے کمزور گروپ میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے پہلے اور اہم ترین اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہوئی نظر آئی ہے اور ان کے اس شبے کو تقویت ملی ہے کہ ان حضرات کو مسجد آنے سے روکنا بہت مشکل ہوگا۔

 بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہرین صحت نے کہا کہ رمضان المبارک قریب آنے کے ساتھ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ نمازیوں کی مساجد میں زیادہ تعداد میں حاضری متوقع ہے۔ 

مزید یہ کہ نماز تراویح اور انتظار کے اوقات طویل مجلس کا باعث بنیں گے۔ اس کے نتیجے میں یہ سب کچھ یقینی ہے کہ اس سے بہت زیادہ انارکی پھیلے گی، کیونکہ سماجی فاصلے کے اصولوں کے مطابق چلنے والی مساجد میں باقاعدہ نمازیوں میں سے 20-25 فیصد تک ہی آ سکیں گے، باقی رہ جانے والے شدیداحتجاج کریں گے، جو صورتحال کو مزید خراب کرنے کا باعث بنے گا۔

 ان کا کہنا کہ اس کے نتیجے میں ہمیں حیرت نہیں ہوگی اگر وائرس کے پھیلاؤ کے علاوہ دیگر مسائل بھی ہماری مساجد میں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پیدا ہو جائیں ، جن میں نمایاں طور پر نمازیوں، مساجد کی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین تنازعات ہیں۔ حال ہی میں یہ تنازعات بھی  چند علاقوں میں دیکھے گئے ہیں۔

اسپتالوں میں کورونا مثبت مریضوں کی ایک بڑی تعداد کی آمد کا سامنا 

 ہمیں پچھلے چند دنوں میں کراچی کے مقامی اسپتالوں میں کورونا مثبت مریضوں کی ایک بڑی تعداد کی آمد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اپنے تجزیے کی بنیاد پر ہمیں خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس تعداد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں تیزی سے اضافہ ہوگا اور اس کے  نتیجے میں بلاشبہ ہمارے پہلے ہی کمزور نظام صحت پر نمایاں دباؤ بنے گا جس کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہمارے نظام میں نہیں ہے۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ لوگوں کے باہر نکلنے سے وائرس کو زیادہ افزائش کے مواقع ملیں گے اور یہ تیزی سے لوگوں میں پھیلے گا اور ہمیں اس بات کے شدید خدشات لاحق ہیں کہ ہماری مساجد اس وائرس کے پھیلنے میں معاون ثابت ہوں گی۔

 بالآخر، یہ تمام امور نہ صرف اسلام اور ہمارے علمائے کرام کی ساکھ کو خطرے میں ڈالنے کا سبب بنیں گے بلکہ اس سے ہماری اور ہمارے بھائیوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوگا جو کہ یقیناً ناپسندیدہ امر ہے۔

یہ بات سب کے علم میں ہے اور عالمی سطح پر مسلم ہے کہ پاکستان کی حیثیت اسلام کے ایک قلعے کی ہے جس کے ساتھ پورے عالم اسلام کی سالمیت، حرمین شریفین کی سالمیت، بڑے بڑے دینی مراکز و تحریکات کی سالمیت وابستہ ہے۔

کورونا وائرس عالمی اور دائمی زوال کا سبب بن سکتا ہے

 دوسری طرف اس ملک کے دشمن ہمیشہ اس انتظار میں رہے ہیں کہ جیسا ہی ملک کمزوری کا شکار ہو تو اس کی یہ صلاحیت ختم کی جائے بلکہ اس کا جغرافیائی وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔

ایسے حالات میں اگر اس وباء کے کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے اس ملک و ریاست کی جو صورت حال ہوگی وہ صرف قیمتی جانوں کے ضیاع تک محدود نہیں ہوگی بلکہ پورے عالم اسلام کو خطرے میں ڈالنے کی صورت ہوگی اور اس ملک کا نقصان صرف اس ملک کی حد تک محدود اور وقتی نہیں ہوگا بلکہ ایک عالمی اور دائمی زوال کا سبب بنے گا۔

بحیثیت ڈاکٹر جان پر کھیل کر شہیدوں میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں

ماہرین صحت کا آخر میں کہنا تھا کہ بحیثیت ڈاکٹر وہ انسانی جانوں کو بچانے کے لئےاپنی جان پر کھیل کر شہیدوں میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں، تو وہیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد باقی لوگوں کی جان بچانے کی کوششوں میں اپنی جان سے چلے جائیں تو، ہمارے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے افرادی قوت سمیت بہت سارے وسائل نہیں ہوں گے۔ اور ہم یہ بات جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں اور وطن عزیز میں کئی ڈاکٹرز اس جنگ میں اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

 ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی آبادی باقی دنیا کے مقابلے میں اس وائرس سےزیادہ محفوظ نہیں ہے۔ یہ بات برطانیہ میں قومی صحت کے ادارے کے ذریعہ جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتی ہے ، وہاں مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی کثیر تعدا ایشین باشندوں پر مشتمل ہے جس میں بہت سارے برصغیر پاک و ہند کے مسلمان بھی شامل ہیں۔ 

در حقیقت یہ معلوم کرنے کے لئے تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے کہ بڑی تعداد میں ایشین عملہ اس سے متاثر ہوا اور ان میں سے کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک اہم حقیقت جس کو ہم سب کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ پاکستانی معاشرے کے سماجی تانے بانے، جہاں ہم سب جانتے ہیں کہ بدانتظامی ، بے ضابطگی اور قواعد پر عمل پیرا نہ ہونا بنیادی طور پر ایک عام بات ہے۔ جہاں شہروں کے پڑھے لکھے لوگ یومیہ سادہ  ٹریفک قوانین (مثال کے طور پر) پر عمل نہیں کرتے ہیں، جہاں ہمارے معاملات میں غلط بیانی، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت ایک معمول ہے۔ 

مساجد کی صورتحال کا کاروباری اداروں اور دکانوں کے ساتھ موازنہ نہ کیا جائے

اس طرح کی عادات و اطوار اور مزاجوں کے نمونوں کو دیکھتے ہوۓ، علماے کرام ، مساجد کی انتظامیہ اور سرکاری اداروں کے لیے یہ تقریباً ناممکن ہے کہ لوگوں کو متفقہ دستاویز میں مذکور شرائط کی 100 فیصد پابندی کروا سکیں، خاص طور پر ملک کے ایسے گنجان آباد علاقوں میں جہاں لوگ عام طور پر تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور ان تمام شرائط کی خلاف ورزی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اور ان کے نتائج و عواقب کو سمجھنے  سے قاصر ہیں۔

ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ اگر ہم مساجد کی صورتحال کا کاروباری اداروں اور دکانوں کے ساتھ موازنہ کررہے ہیں تو یہ کوئی معقول موازنہ نہیں ہے، تاہم دوسری طرف ہم حکومتی انتظامیہ اور تاجر برادری سے بھی درخواست کر رہے ہیں کہ وہ صبر سے کام لیں اور بازاروں پر بھی پابندی کو برقرار رکھیں اور غیر ضروری دکانوں کو بند رکھنا جاری رہے اور صرف انتہائی ضروری کاروباروں جیسے اجناس کی فراہمی وغیرہ کی اجازت ہونی چاہئے اور اس میں بھی بہتر یہی ہے کہ گھروں پر سامان پہنچا دیا جائے۔

 اور اگر ضروری ادارے ، اجناس کی دکانیں ،سبزی منڈی بنک وغیرہ کھولے بغیر چارہ نہ ہو تو حکومت اورتاجروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سختی سے قواعد وضوابط پر عمل کروائیں اور عوام کی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنے اندر احساس ذمےداری پیدا کریں اور قواعد پر عمل کریں۔

مذکورہ بالا تفصیلی وجوہات کی بنا پر، ہم انتہائی احترام اور عاجزی کے ساتھ آپ سے مساجد کے لیے کیے گئے حالیہ فیصلے پر نظرثانی کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور ہم آپ سے گذارش کرتے ہیں کہ مساجد میں صرف 5 نمازیوں تک کی اجازت دینے کے سابقہ فیصلے پر واپس ایک قدم پیچھے جایا جائے کیونکہ یہ اسلام، پاکستان، ہمارے قابل احترام علماے کرام، دین سے محبت کرنے والے لوگوں اور عام عوام  کے بہترین مفاد میں ہے۔

مزید خبریں :