لاک ڈاؤن اور کورونا کے علاوہ

فوٹو: فائل

ملک سے لاک ڈاؤن ختم کیا جا رہا ہے۔ البتہ اسمارٹ لاک ڈاؤن شاید ابھی جاری رہے۔ اس سلسلے میں چند باتیں نامعلوم ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ نہ تو لاک ڈاؤن کے حق میں تھے اور نہ ہیں، لاک ڈاؤن تو اشرافیہ نے لگایا۔

لاک ڈاؤن سے غریب بھوک سے مر جائے گا البتہ اسمارٹ لاک ڈاؤن سے ایسا کوئی خطرہ نہیں۔ معلوم یہ ہونا چاہئے کہ وہ اشرافیہ کون ہے جو لاک ڈاؤن کرکے لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگانا چاہتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے موجد کون ہیں۔

کیونکہ یہ اصطلاح نہ دنیا میں ہے، نہ سنی۔ اور تیسرا یہ کہ لاک ڈاؤن بھی ہو اور اسمارٹ بھی ہو اس سے کیا مراد ہے۔ ہم نے تو کورونا وبا کے دوران یہ دیکھا اور سنا کہ لاک ڈاؤن ہے یا اس میں کچھ نرمی کی گئی ہے یا لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے۔

وزیراعظم نے ٹھیک کہا، ہو سکتا ہے ان کو خبر ہی نہ ہو کہ ملک میں لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اشرافیہ جو کوئی بھی ہے یا ہیں، انہوں نے لاک ڈاؤن کر کے ہزاروں لوگوں کی جانیں بچائی ہیں۔ اگر لاک ڈاؤن نہ ہوتا تو آج شاید اٹلی اور برطانیہ وغیرہ جیسے ممالک کی فہرست میں خدانخواستہ پاکستان کا نام بھی شامل ہوتا۔

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران کتنے لوگ بھوک سے جاں بحق ہوئے جبکہ کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کے بارے میں اعداد و شمار سب کے سامنے ہیں۔

اب جب لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے تو کورونا وبا کے مریضوں اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ بھی سب کے سامنے ہے۔ طبی ماہرین بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کو جاری رکھا جائے بلکہ اس کو مزید سخت کیا جائے۔

بہرحال لاک ڈاؤن کرنے والی اشرافیہ نے بے شمار لوگوں کی جانیں بچائی ہیں۔ اب حکومت لاک ڈاؤن ختم کر کے دیکھ لے، خدا کرے کہ نہ کوئی وبا سے مرے نہ بھوک سے۔ وزیراعظم نے عوام کو متنبہ کیا بھی ہے کہ اگر لوگوں نے احتیاط نہ کی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا رہا تو پھر لاک ڈاؤن کیا جائے گا۔

ایک طرف نامعلوم اشرافیہ پر لاک ڈاؤن کا الزام اور دوسری طرف لاک ڈاؤن کی ضرورت کا ذکر، سمجھ سے بالا ہے۔ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑنے کا نعرہ لگانے والوں کا بس شاید مخالفین پر ہی چلتا ہے۔

اگر آئی پی پیز والوں کی حرکتوں سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے تو مخالف فریقوں کے بارے میں بھی بےلچک رویہ ترک کیاجاسکتا ہے ، اس طرح ملک میں یکجہتی کی فضا بن سکتی ہے اور ملکی ترقی کے مواقع باہمی مشاورت سے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔

کورونا وبا کی وجہ سے جہاں پوری دنیا میں معیشت کو دھچکا لگا ہے وہاں پاکستان بھی اس معاشی نقصان سے محفوظ نہیں۔ جانی و معاشی نقصان کا سلسلہ تھما نہیں بلکہ اس میں مزید شدت آ رہی ہے لیکن ہمارے ہاں کسی کو کوئی فکر نہیں۔

لاک ڈاؤن کے گناہ کی ذمہ داری کسی گمنام اشرافیہ پر ڈالنے کے علاوہ وفاق اور ایک معلوم صوبائی حکومت کے درمیان نیچا دکھانے کا مقابلہ جاری ہے۔ حکمراں اور اپوزیشن بعض معاملات پر اندرونِ خانہ سودا بازی بنام مفاہمت میں مصروف ہیں۔

بظاہر ایک دوسرے کی مخالفت اور بیان بازی ہو رہی ہے۔ یہ قوم کو بیوقوف بنانے کی کوششیں نہیں تو اور کیا ہیں؟ کورونا وبا سے عام شہریوں کے علاوہ سینکڑوں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور پولیس اہلکار متاثر ہوئے ہیں۔ کچھ تو اس جہاد میں شہید بھی ہوئے ہیں، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، کیا ان کیلئے صرف تعریفیں کافی ہیں؟

حکومت اور اپوزیشن کو ملک و قوم کے مفاد کیلئے بھی ایک این آر او کرنا چاہئے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اگر سیاست اور حکمرانی کا یہی چلن رہا تو وقت آئے گا کہ سب کو سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ملے گا۔ کورونا وبا سے جو تباہی ملکی سطح پر ہو رہی ہے وہ تو سامنے ہے لیکن کچھ اور خطرات بھی ہیں جن پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔

ایک تو یہ کہ مشرقی سرحد پر حالات سخت کشیدہ ہیں، افواج پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار اور مستعد ہیں۔ پاک فوج اب بھی بھارت کی مذموم کوشش کو سختی سے ناکام بنا رہی ہے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کو بھی اس معاملے پر اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

حکمران صرف دفتر خارجہ یا وزیراعظم کے مذمتی بیانات پر اکتفا کرکے بیٹھ جاتے ہیں، اپوزیشن میں صرف شہباز شریف کا ایک آدھ بیان اور سراج الحق کے بیانات ہی ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں الزامات اور جواب الجواب کے بجائے اس مسئلہ پر زور دینا چاہئے اور پاک فوج کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔

دوسرا اہم معاملہ ٹڈی دل کے حملے کا ہے، افریقہ اور ایران سے ٹڈیوں کے لشکر پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں۔ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب ٹڈی دل کے حملوں کی زد میں ہیں۔

ٹڈی دل خاص طور پر اجناس کو چٹ کر جاتے ہیں کسی پودے اور درخت پر ایک پتا بھی نہیں چھوڑتے جبکہ اجناس ان کی مرغوب غذا ہے۔ اگر اس وبا کی بھی کورونا کی طرح پیش بندی نہ کی گئی تو ملک میں قحط پھوٹ پڑنے کا شدید خطرہ ہے، پھر واقعی لوگ بھوک سے مریں گے، ماضی میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔

خدارا! ذاتی اور سیاسی مفادات، انا پر ستی، باہمی لڑائیاں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش اب ترک کریں۔

معاف کر دیں ایک دوسرے کو اور ایمانداری سے عہد کریں کہ باہم مل کر ملک و قوم کیلئے سوچیں اور کچھ کریں گے۔ ورنہ وقت اور حالات کسی کا انتظار نہیں کرتے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔