اقتدار کی زکوٰۃ

فوٹو فیس بک—

میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ زکوٰۃ نام ہے مال و جان کو پاک کرنے کا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف مال پر زکوٰۃ واجب ہے اور اُسے ادا کر کے اس فرض سے فارغ ہو جاتے ہیں۔

بلاشبہ مال و زر پر زکوٰۃ فرض ہے جبکہ جان و جسم پر زکوٰۃ باطنی طہارت کا تقاضا ہے۔ کتنے ہی اولیاء کرام ظاہری وضو تو پانی سے کرتے تھے لیکن باطنی وضو توبہ سے کرتے تھے۔

گزشتہ کالم میں مَیں نے ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا تھا، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے مرتبہ کی زکوٰۃ بھی اسی طرح فرض فرمائی ہے جس طرح تمہارے مال پر فرض فرمائی ہے‘‘۔

چنانچہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اکثریت کا کچھ نہ کچھ مرتبہ یا مقام ہوتا ہے۔ مرتبہ سرکاری حیثیت میں ہو تو عہدہ کہلاتا ہے لیکن معاشرتی و سماجی حیثیت سے ہو تو وہ معاشرے میں حیثیت یا مقام (STATUS)کہلاتا ہے۔ حیثیت مال و دولت سے بھی بنتی ہے اور پیشے یا ذاتی وقار سے بھی تشکیل پاتی ہے۔ 

پیشے کے حساب سے آپ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل یا کسی پرائیویٹ کمپنی کے ملازم ہیں تو آپ کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ اگر آپ پروفیسر، شاعر، ادیب، لکھاری، صحافی اور شہرت یافتہ شخصیت ہیں تو آپ کا معاشرے میں اپنا مقام ہے۔ یہی مقامات مرتبہ کہلاتے ہیں اور نعمت کے زمرے میں آتے ہیں۔

مرتبہ، صحت، اولاد، گھر بار‘ سب نعمتیں ہیں اور نعمتوں کی زکوٰۃ شکرانہ اور اللہ پاک کی بندگی ہے۔ شکرانے کے اظہار کے کئی طریقے ہیں مگر عام طور پر رضائے الٰہی کا حصول اور خدمت خلق بہتر طریقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ رضائے الٰہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے تائب ہو کر اور توبہ کر کے ملتی ہے جبکہ بے لوث خدمت خلق جسم کی بہتر زکوٰۃ تصور ہوتی ہے۔

جتنا بلند اور اعلیٰ عہدہ، اسی حساب سے عہدے کی زکوٰۃ بھی واجب ہوتی ہے۔ گزشتہ کالم چھپا تو مجھے اہل درد حضرات نے یاد فرمایا اور حکمرانوں کے عہدےکی زکوٰۃ کے حوالے سے چند تجاویز دیں جن میں سے صرف دو کا ذکر کر رہا ہوں۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ میرے لکھے سے نہ حکمرانوں کے کان پر جُوں رینگے گی نہ انتظامیہ نوٹس لے گی لیکن میں اِسے قلم کی زکوٰۃ سمجھ کر اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔

حکمرانوں کی ڈانواں ڈول کرسیاں اور وبائی دہشت کچھ ایسے اقدامات کا تقاضا کرتی ہے جس سے اُنہیں مخلوق کی دعائیں ملیں۔ خلق خدا کی دعائیں لینے کے دروازے کھلے ہیں کیونکہ لوگ فاقوں اور بیروزگاری کا شکار ہیں جبکہ حکومت نے منصوبہ بندی کرنے اور خواب دکھانے میں دو ماہ ضائع کر دیے ہیں۔

ان خوابوں میں ایک وعدہ کورونا ٹائیگر فورس کا تھا جس نے گلی، محلوں، گائوں، قصبوں اور شہروں میں نہایت ضرورت مندوں کا پتا لگانا اور اُن تک راشن یا مالی امداد پہنچانے کا بندوبست کرنا تھا۔ اگر پابندیوں کو نرم کیا جاتا ہے تو توقع کرنے میں حرج نہیں کہ دہاڑی داروں کی بڑی تعداد کو روزی کمانے کا موقع مل جائے گا اور اُنہیں حکومتی ’’شیروں‘‘ کا انتظار نہیں رہے گا۔

میں نے اپنے کچھ مخلص اور کارکن ٹائپ دوستوں کے ذریعے مستحق آبادیوں میں سروے کرایا تو پتا چلا کہ بمشکل دو فیصد فاقہ کش گھرانوں کو مدد ملی ہے باقی کو ابھی تک صرف ’’لارا‘‘ دیا جا رہا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت ہزاروں خواتین اور مرد نادرا کے دفاتر کے باہر رمضان مبارک کے گرم مہینے میں گھنٹوں قطاریں بنائے کھڑے نظر آتے ہیں۔

حکمران سمجھ لیں کہ یہ بد دعائیں لینے کا بہترین طریقہ ہے۔ ان میں جن خاندانوں کو ذلت و خواری کے بعد بارہ ہزار روپے مل جائیں گے اُن کے دل حکمرانوں کو دعا دینے پر مائل نہیں ہوں گے۔ حضور والا یہ ایمرجنسی کا دور ہے۔ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور لکھایوں کے دعوئوں کے برعکس بھوک سے مرنے کی خبریں بھی اخبارات میں چھپ رہی ہیں۔

بہترین مثال حضرت عمرؓ کی ہے جنہوں نے قحط کے دوران چوری کی سزا معطل کرا دی تھی۔ سادہ سی نیکی یہ تھی کہ جن خاندانوں کے پاس اصلی شناختی کارڈ ہیں انہیں بایو میٹرک کی چکی میں پسنے اور نادرا دفاتر کے باہر دنوں انتظار کی اذیت سے بچا کر صرف شناختی کارڈ دیکھ کر امداد دے دی جاتی تاکہ لوگ حکمرانوں کو دعائیں دیتے گھروں کو لوٹتے۔

انتظامیہ یہ بھی نہیں سمجھتی کہ لاکھوں کروڑوں محنت کش اپنے رہائشی علاقوں سے مزدوری کی خاطر شہروں اور قصبوں میں آ چکے ہیں جبکہ ان کے شناختی کارڈوں پر پتا گائوں کا دیا گیا ہے۔ صرف اس بنیاد پر ایسے لوگوں کو محروم کرنا یا امداد میں تاخیر کرنا ظلم ہے۔ شہروں میں پلوں کے نیچے، پارکوں اور فٹ پاتھوں پر لاکھوں بے کار لوگ صبح سے شام تک کھانے کے منتظر رہتے ہیں۔

مخیر حضرات اور تنظیمیں بڑے جذبے سے کام کر رہی ہیں لیکن چیلنج بہت بڑا ہے۔ کیا حکمران عہدے کی زکوٰۃ دینے کے لئے ان فاقہ کشوں کی فوری امداد کا کوئی منصوبہ بنائیں گے؟ ملک ایمرجنسی سے گزر رہا ہے اور ایمرجنسی میں قوانین کو نرم کرنا ہی خدمت خلق کا تقاضا ہے۔

پاکستان 27رمضان کی نصف شب معرض وجود میں آیا تھا جو شبِ قدر تصور ہوتی ہے۔ کچھ دردمند دوستوں کا مشورہ ہے کہ ہمارے حکمران رمضان المبارک، قیام پاکستان اور عیدالفطر کے حوالے سے اپنے عہدوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہوئے ان ہزاروں قیدیوں کو جیلوں سے رہا کر دیں جو سزا پوری کر چکے ہیں یعنی بھگت چکے ہیں لیکن جرمانہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

ان کا اصل جرم غربت ہے اور ان میں ایک بڑی تعداد خواتین قیدیوں کی بھی ہے۔ یہ قیدی سزا مکمل کر کے محض چند ہزار یا لاکھ روپے ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیلوں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔

بوجھ ان معنوں میں کہ حکومت ان کی خوراک پر بھی معمولی سا خرچ کر رہی ہے اور جیلوں میں مقررہ حد سے زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے انتظامی مسائل کا شکار بھی ہے۔ ان مسائل میں کورونا نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکمران ایسے قیدیوں کو رہا کر کے اپنا بوجھ بھی کم کر سکتے ہیں اور کرسیوں کی زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں۔

اگرچہ حکمران ہماری گزارشات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے لیکن میں نے دو آسان سی تجاویز دی ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ نیکی کسی صاحب اقتدار کے مقدر میں لکھی ہو!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔