12 مئی ، 2020
پاکستانی قومی صحافت کو جدید ترین کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی راہ پر ڈالنے والے، ظہور پذیر سماجی، سیاسی ضروریات سے میڈیا ایجنڈا کی سیٹنگ کی اعلیٰ پیشہ ورانہ روایت شروع کرنے اور بڑھانے والے، پھر رائے عامہ کی تشکیل کے حساس عمل کو اطلاعات (خبروں) کے ہم پلہ لے آنے والے میر شکیل الرحمٰن کو بغیر کسی درج ایف آئی آر کے پہلے نیب کی ڈیڑھ ماہ کی حراست اور اب جوڈیشل کسٹڈی میں آئے کوئی دو ہفتے ہو چلے ہیں۔
کورونا جیسے تباہ کن قومی اور عالمی بحران میں پاکستان کے حقیقی میڈیا لیڈر کے ساتھ کسی ’’بڑی سیاسی ضرورت کو پورا کرنے‘‘ کیلئے یہ سلوک جتنا غیرقانونی اور غیرآئینی ہے، اتنا ہی قابلِ مذمت اور ملکی میڈیا انڈسٹری کے لئے مہلک ثابت ہو چکا ہے۔
یہ ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا مخصوص روایتی میڈیا مخالف ہتھکنڈا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس سے میڈیا جیسے غیرریاستی جمہوریت کے اہم ستون اور خود نیب اور ہمارے عدل و انصاف کو شدید جھٹکا لگا ہے۔
خصوصاً نیب جو (پاکستان میں) جنگ اور جیو کے ذریعے سے پاناما لیکس کے مکمل آزادانہ طور پر آشکار ہونے پر اپنی نیم مردہ حالت میں جان پکڑ سکا تھا، کے اعتبار کو بڑا ڈینٹ پڑا ہے جبکہ دو متنازع وڈیوز اور ایک کالم نگار کو انٹرویو کے نتیجہ میں اس پر پہلے ہی کتنی انگلیاں اُٹھ چکی ہیں، جس کے رسپانس میں تحقیق کی کمیٹی بننے کی بات تو ہوئی لیکن عملاً کوئی فالو اَپ عوام کے سامنے نہیں آیا۔
یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ پاناما لیکس کے بعد میڈیا اور اپوزیشن کے دبائو سے نیب کا تشخص اس کے قیام کے مقصد کے مطابق بننے کی جو صورت بنی تھی اور جس طرح نیب کی اہمیت بڑھنے لگی تھی، اسے اتنا شدید دھچکا لگا۔
پاکستانی رائے عامہ میں احتساب کے قومی ادارے کا ایک زاویہ نگاہ یہ بھی بنا کہ نیب تو میڈیا کی آزادی کو محدود اور سلب کرنے کیلئے حکومت کا ایک پریشر ٹول بن گیا ہے۔ 34سال قبل کے اراضی خریداری کے ایک معاملے سے ایک ڈھیلا ڈھالا الزام گھڑ کر بغیر ایف آئی آر کے اندراج کے ایک نام نہاد مقدمہ بنا کر میر شکیل الرحمٰن کو جس بھونڈے طریقے سے گرفتار کیا گیا۔
اس نے ہمارے قومی میڈیا کے ارتقائی عمل میں پہاڑ جیسی رکاوٹ کھڑی کی، اس کیس کی قانونی بنیاد کمزور تو کیا، ہے ہی نہیں، تاہم غیرجمہوری حکومتی ہتھکنڈے کے طور پر بدنیتی مکمل بےنقاب ہے، جس سے پورے ملکی میڈیا کے ڈھانچے کو شدید دھچکا لگا ہے۔
ایک نومولود ٹی وی چینل کی اچانک بندش، کچھ کی جزوی اور کتنوں کے بند اور لو پروفائل میں چلے جانے کے خدشات، میر صاحب کی گرفتاری سے جنگ گروپ کے ہزاروں ملازمین اور جملہ سروسز دینے والے پیشہ ور صحافیوں، کارکنوں اور چھوٹے بڑے کاروباریوں پر جاری تشویشناک حالات میں بےروزگاری اور تنخواہوں کی مسلسل عدم ادائیگی کا جو جھٹکا لگا ہے وہ منتخب حکومت کا ظالمانہ اور بےرحمانہ حد تک حکومتی حربہ ہے۔
رہے میڈیا لیڈر کے طور پر شکیل صاحب کے ’’قومی جرائم‘‘ تو اُس کی کتنی ہی تفصیلات اِن سطور میں ریکارڈ ہو چکی ہیں اور سنیے، اور اندازہ لگائیں کہ ملک کے سب سے بڑے میڈیا کی قومی امور میں کیا اہمیت اور حیثیت ہے۔
مہینہ تھا مئی کا، سال 2009، میں پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائر ہوا تو شکیل صاحب نے میری جزوی مشاورت کو کلی میں تبدیل کرنے کے ارادے سے مجھے جلدی جلدی کراچی طلب کرنا شروع کر دیا، پرانے ارادے اور حکومتی حربوں سے متاثر ہونے والی پلاننگ جو عین عملدرآمد سے پہلے بری طرح ڈسٹرب ہو چکی تھی۔
اب وکلا تحریک کی کامیابی کے بعد آئینی، جمہوری عمل شروع ہو گیا تھا، انتخابات کے بعد منتخب حکومتیں بھی وجود میں آ چکی تھیں۔
میں نے پرانا ریکارڈ کھولا اور میر صاحب کو یاد دلایا کہ ہم دوسری نواز حکومت میں جنگ/ جیو میں پبلک افیئرز کو زیادہ سے زیادہ جگہ دینے کی جو دستاویزی پلاننگ کر چکے تھے مگر احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمٰن کو جنگ گروپ کے پیچھے لگا کر اسے اخبار بند کرنے کا کام سونپ دیا گیا تھا، اور جب ہم پبلک افیئرز کے بڑے عوامی مفادات کے نظر انداز اور نہ رپورٹ ہونے والے ایریاز کی نتیجہ خیز رپورٹنگ اور اس کے جارح فالو اپ پر عملدرآمد کرنے ہی والے تھے تو ’’دی نیوز‘‘ میں ایک تحقیقاتی رپورٹ مع مکمل ثبوت اور تصاویر کے اسلام آباد سے فائل ہو کر کراچی آئی جس کی اشاعت روکنے کے لئے حکومتی دبائو کے ساتھ روکنے کی فرمائش بھی آئی۔
خبر تھی کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اسمبلی میں بیان کہ ’’بی ایم ڈبلیو کاروں کی درآمد (بلا ڈیوٹی) روک دی گئی ہے‘‘ کے باوجود بتائی گئی تاریخ کے بعد کے درآمدی آرڈر کی کاریں اسلام آباد کے شو رومز میں برائے فروخت دستیاب ہیں۔
یہ ٹھیک ٹھاک حکومتی کرپشن اور منتخب ایوان میں وقفہ سوالات پر غلط اطلاع دینے (جس کے ثابت ہونے پر اسمبلی رکنیت معطل ہو جاتی ہے) کی باثبوت خبر تھی۔ میں نے متذکرہ پروجیکٹ پر فائل پریزنٹیشن شکیل صاحب کو دینا تھی، اسی دوران معلوم ہوا کہ بھٹو دور کے بنائے گئے کئی کروڑ غالباً (64کروڑ) کے ٹیکس کی ادائیگی کے نوٹس آگئے ہیں اور ساتھ ہی ’’دی نیوز‘‘ کی خبر رکوانے کی فرمائش دھمکیوں میں تبدیل ہو گئی۔
چوہدری شجاعت جو اس وقت وزیر داخلہ تھے، پورے اخلاص سے حکومتی ’’فرمائش‘‘ ماننے کا مشورہ دے رہے تھے اور حکومت کے سخت آمرانہ ارادوں، جنگ بند کرنے، حکومتی مہم جوئی کی تیاری کا یقین دلا رہے تھے۔ (جاری ہے)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔