12 مئی ، 2020
لاہور: جنگ و جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کی پرائیوٹ پراپرٹی کیس میں درخواست ضمانت پر نیب کو نوٹس جاری کردیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست ضمانت پر سماعت کی جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمان 45 سال سے صحافت اور نیوز بزنس سے وابستہ ہیں، نیب نے انہیں غیرقانونی طور پرگرفتار کیا اور گرفتاری کی وجوہات بھی غیرقانونی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ احتساب بیورو نے شکایت کی تصدیق کی اسٹیج پر گرفتار کیا جس سے نیب نے اپنے ہی بنائے گئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی جب کہ 34 برس قبل خریدی گئی پراپرٹی کےتمام شواہد نیب کو فراہم کرچکے ہیں۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب کی جانب سے دوران تفتیش کچھ برآمد نہیں ہوا لہٰذا درخواست ضمانت منظور کی جائے۔
دورانِ سماعت عدالت نے میر شکیل الرحمان کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس درخواست ضمانت کے لیے آپ کی فریش گراؤنڈز کیا ہیں، میر شکیل الرحمان سے انکوائری کے دوران کیا ملا ہے؟
اس پر میر شکیل الرحمان کے وکیل نے بتایا کہ ان کے مؤکل جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں اور انہیں جیل میں رکھنے کو کوئی جواز نہیں، میر شکیل الرحمان سے کچھ بھی برآمد نہیں کرنا لہٰذا جیل میں رکھنا درست نہیں۔
عدالت نے پوچھا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو شامل تفتیش کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں، اس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب کے مطابق اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کو بھی طلب کیا گیا ہے لیکن تاحال نواز شریف نے انکوائری جوائن نہیں کی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست ضمانت پر نیب کو 28 مئی کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
میر شکیل الرحمان نے 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں 5 مارچ کو طلب کیا، میرشکیل الرحمان نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔
نیب نے 12 مارچ کو دوبارہ بلایا، میر شکیل انکوائری کے لیے پیش ہوئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔
لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لیے دائرکی گئیں، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔