میر شکیل کی گرفتاری کیخلاف پارلیمنٹ کے باہر دھرنا، وزیر اطلاعات کی بھی شرکت

جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے خلاف راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا جس میں وزیراطلاعات شبلی فراز بھی شریک ہوئے۔

آزادی صحافت کے عالمی دن پر راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا اور دھرنا دیا جس میں سینیئرصحافیوں اور صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔

مظاہرے میں صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز بھی شریک ہوئے۔

اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے شبلی فراز کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں صحافت جیسے مقدس پیشے کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کا یہ حقدار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحافی ہر دور میں چاہے کوئی بھی صورتحال ہو، مسئلہ کشمیر ہو یا انسانی حقوق کا معاملہ یاسیاسی جدوجہد ہو اپنی آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ میرے والد احمد فراز بھی آپ لوگوں کا حصہ تھے اور اسی مناسبت سے میں اپنے آپ کو آپ ہی کے قبیلے کا فرد سمجھتا ہوں اور تہہ دل کے ساتھ صحافیوں کے ساتھ ہوں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے شعبہ صحافت کسی بھی شعبے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور کورونا کی وبا کے دوران میڈیا کا کردار قابل ستائش رہا ہے، میرا مقصد صحافیوں کے مطالبات اورحکومت کی پالیسیوں کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے۔

 پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر  رحمان ملک نے کہا کہ حکومت دیگر اداروں کی طرح صحافیوں کے لیے بھی پیکج کا اعلان کرے۔

مسلم لیگ ن کے  رہنما جاوید لطیف نے کہا کہ بولنے اور لکھنے پرپابندی نہیں لگنی چاہیے۔

'صحافیوں کیلئے پارلیمنٹ میں پروٹیکشن بل منظور ہونا چاہیے'

 مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور جیو نیوز کے اینکر حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافی محفوظ نہیں، اسی لیے پارلیمنٹ میں پروٹیکشن بل منظور ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ میر شکیل الرحمان کو گرفتار رکھنے سے دنیا میں پاکستان کا نام بدنام ہو رہا ہے، مشرف دور میں احمد فراز ہم صحافیوں کا ساتھ دیا کرتے تھے، آج بھی صحافت محاصرے میں ہے اور عالمی یوم صحافت پر احمد فراز کی نظم محاصرہ یاد آرہی ہے۔

میر شکیل الرحمان کے کیس کا پس منظر

میر شکیل الرحمان نے 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں 5 مارچ کو طلب کیا، میرشکیل الرحمان نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔

نیب نے 12 مارچ کو دوبارہ بلایا، میر شکیل انکوائری کے لیے پیش ہوئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔

لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لیے دائرکی گئیں، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔

تاہم بعدازاں 28 اپریل کو لاہور کی احتساب عدالت نے میر شکیل الرحمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مزید خبریں :