12 مئی ، 2020
صدر مملکت عارف علوی نے 10 واں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) تشکیل دے دیا۔
وزیر خزانہ کی حیثیت سے وزیر اعظم عمران خان قومی مالیاتی کمیشن کے چیئرمین ہوں گے جبکہ مشیر خزانہ اور چاروں صوبائی وزرائے خزانہ قومی مالیاتی کمیشن کے رکن ہوں گے۔
مشیر خزانہ کو وزیرخزانہ کی عدم موجودگی میں قومی مالیاتی کمیشن کی صدارت کا اختیار ہوگا، قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل 23اپریل 2020 سے مؤثر ہوگی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی سیکرٹری خزانہ سرکاری طور پر ماہر کی حیثیت سے کمیشن کا حصہ ہوں گے،بلوچستان سے جاوید جبار قومی مالیاتی کمیشن کے ممبر ہوں گے۔
صوبہ سندھ سے ڈاکٹر اسد سعید اور خیبر پختونخوا سے مشرف رسول کمیشن کے ممبر ہوں گے۔
پنجاب سے سابق گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ قومی مالیاتی کمیشن کے ممبر ہوں گے۔
قومی مالیاتی کمیشن کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) بھی جاری کردیے گئے ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق این ایف سی کے ٹی او آرز میں چار شعبوں کے اخراجات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مرکز کی طرف سے صوبائی حکومتوں کو گرانٹ اِن ایڈ کو بھی ٹی او آرز میں شامل کیا گیا ہے جبکہ وفاقی حکومت کے حاصل کردہ قرضوں میں صوبائی حکومتوں کا حصہ بھی زیر بحث آئے گا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور سابقہ فاٹا کیلئے وسائل مختص کرنا بھی این ایف سی کا حصہ ہوگا۔
اس کے علاوہ سیکیورٹی اور قدرتی آفات پر اٹھنے والے اخراجات بھی ٹی او آرز کا حصہ بنائے گئے ہیں۔
اس سلسلے میں وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن اشیاء پر سیلز ٹیکس کی وصولی کی تقسیم کو طے کرے گا، کمیشن کپاس کی ایکسپورٹ ڈیوٹیز یا صدر مملکت کی طے کردہ دیگر ڈیوٹیز کی تقسیم کا جائزہ لے گا۔
وزارت خزانہ لے مطابق کمیشن ایکسائز ڈیوٹیز کی تقسیم کا طریقہ کار طے کرے گا، قرضوں کا تخمینہ اور ادائیگی کا طریقہ کار طے کرے گا اور سبسڈیز کا جائزہ لے گا۔
وزارت خزانہ کے مطابق کمیشن سرکاری اداروں کے نقصانات کو کم کرنے کیلئے تجاویز بھی دے گا۔
آئین کے آرٹیکل 160 (ون) کے مطابق ہر 5 سال بعد این ایف سی تشکیل دیا جاتا ہے جس میں وفاق اور صوبوں کے وزراء قانونی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ ضروری ہے کہ ہر صوبے سے ایک غیر حکومتی رکن بھی شامل ہو۔
خیال رہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق اپنی کل آمدنی میں سے طے کردہ فارمولے کے تحت صوبوں کو ان کا حصہ دیتا ہے۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت اب ملک کی کل آمدن کا 57 فیصد حصہ صوبوں میں آبادی کے تناسب سے تقسیم ہو جاتا ہے جبکہ وفاق کے پاس 43 فیصد بچتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے فروری 2016 میں 9واں این ایف سی تشکیل دیا تھا۔