Time 18 مئی ، 2020
بلاگ

شوگر کہانی!

فوٹو فائل—

یہ تو آپ کو معلوم، جب چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا، جب چینی غیر معمولی مہنگی کی گئی، جب چینی ایکسپورٹ، سبسڈی کے مشکوک معاملات سامنے آئے، تب وزیراعظم عمران خان نے واجد ضیاء کی سربراہی میں 3رکنی انکوائری کمیشن بناکر تمام معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا، انکوائری کمیشن پہلی رپورٹ جمع کروا چکا، یہ رپورٹ پبلک بھی ہو چکی۔

اب تفصیلی رپورٹ بھی تیار، 2سو صفحات سے زائد یہ رپورٹ آج یا کل وزیراعظم کو پیش ہونیوالی، یہ بھی آپ کو معلوم، یہ 10شوگر ملوں کا پنج سالہ آڈٹ۔اب آ جائیے، اس تفصیلی رپورٹ پر، سنا جا رہا، ہوشربا انکشافات، جیسے شوگر مافیا کا چوری چھپے کسانوں سے بہت ہی سستا گنا لینا، جیسے ٹیکس بچانے، آمدنی چھپانے، زیادہ منافع کمانے، پیسہ بچانے کیلئے شوگر مافیا کے کچے، پکے رجسٹر، کچے، پکے اکاؤنٹ مطلب ڈبل کھاتے، ڈبل کھانچے، جیسے اربوں کی ٹیکس چوریاں، جیسے گھوسٹ سبسڈیاں، گھوسٹ ایکسپورٹ، اور تو اور، 90فیصد چینی کا بے نامی کاروبار ہو رہا، سنا جا رہا۔

گزرے 5سالوں میں شوگر مافیا کو 29ارب کی سبسڈی دی گئی، 22ارب سبسڈی پچھلی حکومتوں نے دی، ڈھائی ارب سبسڈی سائیں بزدار نے جبکہ ساڑھے چار ارب کی سبسڈی سندھ حکومت نے دی۔

اب آ جائیے، موجودہ حکومت کی چینی ایکسپورٹ، سبسڈی داستان پر، کہانی کچھ یوں، تحریک انصاف حکومت آئی، شوگر مافیا مبینہ طور پر رزاق داؤد، جہانگیر ترین، خسرو بختیار اینڈ کمپنی کی سرپرستی میں سرگرم ہوا، رزاق داؤد ایکسپورٹ، سبسڈی سمری لائے، وزیر خزانہ اسد عمر نے سمری مسترد کر دی، شوگر مافیا نے ہمت نہ ہاری، رزاق داؤد، جہانگیر ترین، خسرو بختیار اینڈ کمپنی کی سربراہی میں اپنی کوششیں جاری رکھیں، بالآخر یہ کوششیں کامیاب ہوئیں۔

اسد عمر نے نہ صرف 10لاکھ ٹن کے بجائے 11لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیدی، نہ صرف شوگر مافیا کو نواز شریف دور کے رکے ہوئے سبسڈی کے 2ارب بھی دلوا دیے بلکہ شوگر مافیا کو یہ آپشن بھی دیا کہ اگر وہ سبسڈی لینا چاہتے ہیں تو صوبوں سے لے لیں۔

اب وفاق سے ایکسپورٹ اجازت ملنے اور سبسڈی صوبوں سے لے لو کے بعد شوگر مافیا مبینہ طور پر رزاق داؤد، جہانگیر ترین، خسرو بختیار اینڈ کمپنی کی سربراہی میں عثمان بزدار کے پاس جا پہنچا، اب ایک طرف جہانگیر ترین، خسرو بختیار، ہاشم جواں بخت اور شوگر مافیا ہو، سائیں بزدار کی مجال انکار کر سکیں، وہی ہوا، جو ہونا تھا۔

سائیں بزدار نے 5روپے 35پیسے فی کلو کے حساب سے 15شوگر ملوں کو 3ارب کی سبسڈی دیدی، اب اس پوری ایکسپورٹ، سبسڈی کہانی میں مبینہ طور پر رزاق داؤد، اسد عمر، عثمان بزدار، خسرو بختیار، ہاشم جواں بخت، جہانگیر ترین، شوگر مل مالکان، ای سی سی، وفاقی کابینہ ذمہ دار، کس پر کتنی ذمہ داری، یہ علیحدہ بحث، مگر یہ طے، جو ہوا، سب کی ملی بھگت سے ہوا۔

اب آ جائیے، اس بات پر کہ انکوائری کمیشن نے مراد علی شاہ کو کیوں بلایا، انکوائری کمیشن نے مراد علی شاہ کو خط لکھا کہ وہ پیش ہوں، پہلے سندھ سرکار نے یہ جواز گھڑا کہ چونکہ سندھ نے چینی ایکسپورٹ کی اجازت دی نہ سبسڈی کی، لہٰذا مراد علی شاہ کی پیش ہونے کی ضرورت ہی نہیں، جب بتایا گیا کہ سندھ سبسڈی دے چکا تو سندھ ایڈووکیٹ جنرل نے انکوائری کمیشن کو خط لکھ دیا کہ ایک تو کمیشن کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ وزیراعلیٰ کو بلا سکے، دوسرا کمیشن 2019-20ء کا آڈ ٹ کر رہا اور سندھ حکومت نے ان سالوں میں سبسڈی نہیں دی۔

اس خط کے جواب میں انکوائری کمیشن نے وزیراعلیٰ سندھ کو جوابی خط لکھا کہ وزیراعظم کے بنائے کمیشن کے ٹی او آر کے تحت ہم آپ کو بلا سکتے ہیں، تبھی تو رزاق داؤد، اسد عمر، عثمان بزدار بھی پیش ہو چکے، دوسرا ہم 2سالوں کا نہیں 5سالہ آڈٹ کر رہے ہیں، گو کہ پھر بھی وزیراعلیٰ سندھ پیش نہیں ہوئے۔

لیکن سوال یہ، انکوائری کمیشن انہیں کیوں بلانا چاہتا تھا، اس کا جواب یہ، دسمبر 2017کو بحیثیت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 10روپے 70پیسے فی کلو چینی کے حساب سے 20ارب کی سبسڈی دی، اس سبسڈی کے بعد سندھ حکومت نے 9روپے 30پیسے فی کلو کے حساب سے مبینہ طور پر اپنی ملوں (اومنی، زرداری) کو مزید سبسڈی دیدی، اندازہ کریں، وفاق سے سبسڈی، پھر خود کو خود سبسڈی، یہ غیر قانونی سبسڈی کیوں دی گئی، یہی پوچھنے کیلئے کمیشن نے مراد علی شاہ کو بلایا۔

آپ کے علم میں یہ تو ہوگا ہی کہ جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ 35والیمز جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ آچکا کہ سندھ میں کس طرح بیمار صنعتی یونٹ سبسڈی، غریب کسان سبسڈی، گنا سبسڈی، ٹریکٹر سبسڈی کھا لی گئی، یہی جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ جے آئی ٹی رپورٹ نے بتایا کہ کیسے سندھ اسمبلی، سندھ کابینہ سے قراردادیں پاس کروا کر زرداری، اومنی شوگر ملوں کے پاور پلانٹس کے بجلی ریٹس تبدیل کئے گئے، اپنی شوگر ملوں کو خود ہی سبسڈیاں دی گئیں۔

سنا جا رہا، اس شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ میں اور بھی بہت کہانیاں، دیکھتے ہیں، یہاں جاتے جاتے 3باتیں، پہلی بات، پاکستانی قوم ہر ماہ 50کروڑ کلو چینی کھا جائے، مطلب ہماری کھپت 6ارب کلو سالانہ چینی، اب شوگر مافیا مصنوعی چینی بحران پید ا کرکے جب 16روپے فی کلو چینی کی قیمت بڑھائے گا تو سالانہ کتنا کمائے گا، خود ہی حساب کتاب کر لیں، دوسری بات، شوگر انڈسٹری کتنا انکم ٹیکس دے، کتنا ٹیکس چوری کرے۔

تفصیلی رپورٹ آ لینے دیں، یہ کہانی سن کر آپ کے پاؤں سے زمین نکل جائے گی، تیسری بات، ہاؤس آف شریف کی ایک مل العریبیہ شوگر مل کا بھی آڈٹ ہوا، یہ مل حمزہ شہباز، سلمان شہباز، نصرت شہباز کی ملکیت، باقی شوگر ملوں کی طرح جب انہیں بھی یہ خط لکھا گیا کہ آپ یا آپ کا کوئی نمائندہ پیش ہو تو انہوں نے اپنا وہ ڈائریکٹر ٹیکنیکل بھیج دیا، جس نے انکوائری کمیشن میں آکر کہا۔

مجھے فنانس کا پتا نہ پروڈکشن کا، اکاؤنٹس کا پتا نہ آپریشن کا، مجھ سے کچھ انجینئرنگ کا پوچھنا تو پوچھ لیں، سمجھے، نہیں سمجھے، وہی شریفوں کا پرانا وتیرہ، خود کچھ بتانا نہیں، کوئی پوچھے تو مکر جانا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔