بلاگ
Time 19 مئی ، 2020

ہمارا لاہور، وزیراعلیٰ اور ایل ڈی اے

فوٹو: فائل

ماڈل ٹاؤن لاہور میری پسندیدہ ترین بستیوں میں سے ایک ہے۔ 20سال پلس پہلے کی بات ہے جب میں نے ماڈل ٹائون کی رِنگ روڈ کو ادھڑے ہوئے اور کچھ قدیم درختوں کو کٹے ہوئے دیکھا تو دکھی ہوکر ایک انتہائی سخت کالم لکھا۔ ایک نوجوان سول انجینئر حبیب رندھاوا نے رابطہ کیا اور بتایا کہ جو کچھ ہو رہا ہے۔

بستی کی بہتری بھلائی اور خوبصورتی کے لئے ناگزیر ہے اور مسئلہ اگر کام کی رفتار کا ہے تو میں یہ رفتار بڑھانے کا وعدہ کرتا ہوں۔ مجھے اچھا لگا اور یوں بھی کہ نوجوان انجینئر گورنمنٹ کالج لائل پور کا پڑھا ہوا تھا جس نے ’’ایم ایس سی‘‘ این سی اے لاہور سے کر رکھی تھی۔ پھر جب ماڈل ٹائون لاہور کی ری ماڈلنگ مکمل ہوئی تو میں اَش اَش کر اٹھا۔ حبیب رندھاوا کو دعائوں کے ساتھ گلدستہ بھی پیش کیا۔ پھر یہ نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لئے کینیڈا چلا گیا۔

آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ چہرہ تو کیا میں اس کا نام تک بھی بھول گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔دو چیزوں نے زندگی بھر مجھے پکڑے اور جکڑے رکھا۔ ایک تو میرا کام یعنی کتاب، قلم اور کاغذ سے میرا رومانس، دوسرا یہ شہر لاہور جو میرے دل میں بستا ہے اور جس کی بے ہنگم توسیع اور غیر ضروری بے تکی آبادی پر میں ہمیشہ کڑھتا ہوں کیونکہ مہذب قومیں اپنے شہروں کو شتر بے مہار کی طرح بے لگام نہیں چھوڑ دیتیں۔

سب سے بڑھ کر یہ ہمارے آقاﷺ کا حکم بھی ہے کہ اک خاص حد سے تجاوز کرنے سے پہلے نئے شہر آباد کرو لیکن ہمارے حکمران؟ الامان الحفیظ، جنہیں رشوت اور سستی شہرت کے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو خوبصورتی کے نام پر بھی بدصورتی کا باعث بنتی ہے۔ لاہور کے ساتھ بھی بڑی زیادتیاں ہوئیں۔ غیر منصفانہ رویوں اور ووٹ کے لالچ نے بھی ظلم ڈھائے۔

اشرافیہ کے علاقوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کر کے باقی بہت کچھ نظر انداز کر دیا گیا۔ NESPAKکی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق کچھ چوراہوں پر 24 گھنٹوں میں سے 20گھنٹے ٹریفک جیم رہتی ہے۔ اس RETENTION TIME میں پھنسی ہوئی بڑی چھوٹی گاڑیاں، موٹر سائیکل، رکشے وغیرہ وغیرہ رکے رہتے ہوئے بھی ’’سٹارٹ‘‘ رہتے ہیں کیونکہ ٹریفک رینگ رہی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں زہریلی گیسیں جنم لیتی ہیں مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفائیڈ، نائٹرائیڈز وغیرہ جن سے سانس، معدہ، اعصاب اور دل کی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

کروڑوں کا جو پٹرول ضائع ہوتا ہے وہ علیحدہ۔لاہور کے شہکام چوک فلائی اوور سے لے کر برکت مارکیٹ، فردوس مارکیٹ اور کریم بلاک مارکیٹ پر انڈر پاسز اور شاہدرہ کے مقام پر لاہور، فیصل آباد کا گوجرانوالہ کی طرف فلائی اوور شہر کو بے شمار عوارض و اذیت سے نجات دلا سکتا ہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا یہ کہ شہکام چوک پر فلائی اوور ایسے مافیاز نے مدتوں روکے رکھا جو اس کے اردگرد زمینوں کی خریداری میں مصروف تھے۔

ٹھوکر نیاز بیگ سے شہکام چوک کی تنگ سڑک کے گرد کی آبادیوں پر عرصہ دراز سے یہ عذاب مسلط ہے۔ اس کی تکمیل تک لاکھوں شہری اس سست رفتار اور CHOKED ٹریفک کی اذیتیں جھیلنے پر مجبور ہوں گے۔ یہاں ضمناً عرض کرتا چلوں کہ ہم اپنے موجودہ گھر سے ’’بیلی پور‘‘ والے گھر تک آنے جانے کے لئے ملتان روڈ یا جاتی امرا والا رستہ استعمال کرتے ہیں۔

شہکام والے رستے کی اذیت میرا فرسٹ ہینڈ نالج ہے کیونکہ انہی وجوہات کے سبب کبھی استعمال نہیں کیا۔مختصراً یہ کہ سنتے تھے، پڑھتے تھے، کڑھتے تھے یا کبھی کسی متعلقہ بندے سے بات کرتے تھے اور بس کہ یہی ہم عوام کی قسمت ہے۔شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیرؔشہر پر یہ ظلم میرے نام پر اُس نے کیاموجودہ حکومت کا یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے کہ اس نے اس تاریخی لاہور شہر کو ’’پھٹنے‘‘ سے بچانے کے لئے شہر کو ’’سیز‘‘ کر دیا ہے جو اس شہر اور اس کے شہریوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ احسان کا مطلب مہربانی، دان، عنایت وغیرہ ہرگز نہیں۔ اس کا مطلب ہے کسی کی کوئی کمی پوری کرنا جو ظاہر ہے ہر اچھی حکومت کا اولین فرض ہے۔

حکومت کو اس پر جتنی بھی داد اور شاباش ملے کم ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ لاہور کے حوالہ سے میں نے جن چند مسائل کی طرف اشارہ کیا، پنجاب حکومت ان کی طرف بھی متوجہ ہو گئی ہے۔

میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی اس بات پر بہت چڑتا تھا کہ ’’جی میں تو پسماندہ علاقوں کا وکیل ہوں‘‘ یعنی غیر پسماندہ ہونا کوئی جرم تھا لیکن نہیں... وزیراعلیٰ ’’چوکس‘‘ ہے اور یہ خطرہ پہلی بار محسوس ہوا کہ کہیں واقعی وسیم اکرم پلس نہ ہو جائے۔اب ذرا واپس چلتے ہیں 20,25سال پلس والے اس نوجوان سول انجینئر کی طرف جس نے ماڈل ٹائون سنوارا تھا۔ حبیب رندھاوا، جس کا نام اور چہرہ بھی میں بھول چکا تھا۔

چند روز پہلے میرے چھوٹے بھائی نوید نثار نے مجھ سے کہا کہ اس کا لائل پور کا ایک پرانا کلاس فیلو مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا ’’لے آئو لیکن کون ہے کیا کرتا ہے؟‘‘ بولا ’’ماحولیاتی سائنس میں پی ایچ ڈی ہے حبیب رندھاوا، آج کل چیف انجینئر ایل ڈی اے ہے‘‘۔

مجھے تب بھی کچھ یاد نہ آیا لیکن جب ملاقات ہوئی اور اس نے 20,25سال پرانا واقعہ کالم اور پھولوں کا تحفہ یاد دلایا تو بے پناہ خوشی ہوئی اور میں نے کہا کہ ’’بھائی! تم نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ تم میرے بھائی کے کلاس فیلو ہو‘‘ معصومیت سے بولا ’’تب تو مجھے بھی علم نہیں تھا کہ آپ نوید کے بڑے بھائی ہیں‘‘۔تب لاہور کی بے ہنگم توسیع، غیر منصفانہ ترقی کی بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ’’اب سب صحیح ٹریک پر صحیح سمت میں ہے۔ چیف منسٹر سے لے کر وائس چیئرمین عمران اور ڈی جی احمد عزیز تک مجھ سمیت سبھی بنیادی، جوہری تبدیلیوں کے لئے سرگرم ہیں اور بہت جلد آپ لاہور کو اک نئے روپ میں دیکھیں گے ان شاء اللہ‘‘۔

انسان آتے جاتے رہتے ہیں، شہر زندہ رہتے ہیں اور پھر شہر بھی ہمارے لاہور جیسا جسے ملکہ نور جہاں اپنی جان کے عوض بھی کم جانتی تھی اور جس نے لاہور نہیں دیکھا، سمجھو پیدا ہی نہیں ہوا۔ جو خواب مجھے حبیب رندھاوا نے دکھائے ان کی تعبیر مل جائے تو تعبیر ملنے سے پہلے ہی وزیراعلیٰ پنجاب سے لے کر ایل ڈی اے کی موجودہ انتظامیہ تک کا ایڈوانس میں شکریہ، شاباش اور دعائیں۔

وزیراعلیٰ بزدار کے لئے اک ادبی مشورہ، منیر نیازی مرحوم بے مثال، لازوال شاعر تھے، ہو سکے تو گلبرگ کی مین بلیوارڈ پر صدیق سنٹر کے سامنے والا اوور ہیڈ برج منیر نیازی مرحوم کے نام کر دیں، لاہور کی عزت میں اضافہ ہو گا۔’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘اہم نوٹ:میں اخبارات کی آمد سے پہلے کالم مکمل کر چکا تھا۔

پہلے ’’جنگ‘‘ اٹھایا تو ایل ڈی اے کا اک اشتہار نظر آیا جس میں لاہوریوں کو فردوس مارکیٹ انڈر پاس کے افتتاح کی خوشخبری سناتے ہوئے LDA بتاتا ہے کہ ایک ارب 9 کروڑ تخمینہ والا یہ منصوبہ صرف 96کروڑ میں مکمل ہوگا جس سے ایندھن کی مد میں کروڑوں روپے سالانہ اور قیمتی وقت کی بچت ہو گی اور سلوگن تھا۔’’نیا ایل ڈی اے نیا دور۔ بدل رہا ہے اب لاہور‘‘دعا ہے کہ باقی محکمے اور ادارے بھی یونہی بدل جائیں اور میری نسل رخصت ہونے سے پہلے اس ملک کو ٹیک آف کرتا دیکھ لے۔ آمین!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔