پاکستان

طیارے نے بغیر پہیے کُھلے لینڈ کیا پھر ٹیک آف کیوں کرلیا؟ تحقیقات جاری

کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کے طیارے کو ہونے والا حادثہ غفلت تھی یا کسی غلطی کا نتیجہ تحقیقات جاری ہیں۔

سول ایوی ایشن کے ذرائع نے طیارے کے رن وے کو چھونے کی تصدیق کردی، طیارے نے دن 2 بجکر 20 منٹ پر پہیے کُھلے بغیر رن وے پر لینڈ کیا، پھر پائلٹ نے دوبارہ ٹیک آف کرلیا۔

دوبارہ ٹیک آف کا حکم کس نے دیا اس کی تحقیقات کپتان کی کنٹرول ٹاور سے ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کریش لینڈنگ سے رن وے پر کافی چنگاریاں بھی اٹھیں، ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ رن وے پر لینڈنگ کی کوشش کے دوران ہی جہاز کے انجن کو نقصان پہنچا ہو۔

سول ایوی ایشن کے ذرائع نے طیارے کے رن وے کو چھونے کی تصدیق کی ہے، جہاز کی بلندی 7ہزار فٹ تھی، 5ہزار فٹ پر آنے کو کہا گیا، لینڈنگ کی پہلی کوشش کے دوران جہاز کے انجن 3مرتبہ رن وے سے ٹکرائے، جہاز کے انجن سے چنگاریاں بھی نکلیں،جہاز کے رن وے سے ٹکرانے کے نشانات بھی رن وے پر موجود ہیں۔

لینڈ نگ کرتے ہوئے طیارے کا بایاں اور دایاں انجن یکے بعد دیگرے طویل فاصلے تک رگڑ کھاتے ہوئے تین مرتبہ رن وے سے ٹکرائے ، جس کے بعد طیارہ دوبارہ فضا میں بلند ہوگیا۔

سول ایوی ایشن ذرائع کے مطابق حیرت انگیز طور پر لینڈنگ کیلئے آتے ہوئے طیارے کی بلندی مقررہ حد سے تقریباً چار ہزار فٹ زیادہ تھی۔ ائیرٹریفک کنٹرولر نے بلندی کم کرنے کو کہا تو پائلٹ نے کہا کہ وہ اسے مینج کرلے گا۔

اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ لینڈنگ کے وقت طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور کے بجائے اپروچ ریڈار کے پاس تھا۔ اپروچ ریڈار میں موجود ائیرٹریفک کنٹرولر اپنی  آنکھوں سے طیارے کو دیکھ نہیں رہا ہوتا جبکہ کنٹرول ٹاور میں موجود عملہ اے ٹی سی او طیارے کو دیکھ سکتاہے ۔

تحقیقاتی ذرائع نے امکان ظاہر کیا کہ طیارے کے انجن کے رن وے سے ٹکرانے کی وجہ سے اس کا انجن آئل پائپ اور فیول پائپ لیک ہوگیا ہو ، جس کی وجہ سے ایندھن کی سپلائی متاثر ہوئی ہو اور انجنز کے کام کی صلاحیت اتنی متاثر ہوئی ہو کہ بلاآخر دونوں انجنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔

لینڈنگ کرتے ہوئے پائلٹ کو کیوں علم نہیں ہوا کہ طیارے کے پہیے نہیں کھلے ہیں؟

اب تک جو صورتحال سامنے آئی ہے اس نے تحقیقات کاروں کیلئے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ لینڈنگ کے وقت پائلٹ نے طیارے کی بلندی کیوں زیادہ رکھی اور وہ کیا دباؤ تھا کہ اے ٹی سی او کے توجہ دلانے پر بھی بلندی کم نہیں کی؟

لینڈنگ کرتے ہوئے پائلٹ کو کیوں علم نہیں ہوا کہ طیارے کے پہیے نہیں کھلے ہیں؟ حالانکہ طیارے کا سسٹم پہیے نہ کھلنے کی اطلاع بار بار دیتا ہے۔ پائلٹ نے اس پر توجہ کیوں نہ دی ؟ یا یہ سسٹم درست کام ہی نہیں کر رہا تھا؟

جب ایک مرتبہ طیارہ رن وے کو ٹچ کر گیا تھا تو پائلٹ نے دوبارہ طیارے کو کیوں اٹھایا؟

ائیرٹریفک کنٹرولر نے انکشاف کیا کہ آخری مے ڈے کال سے پہلے کسی بھی مرحلے پر پائلٹ نے ہنگامی صورتحال کا نہیں بتایا اور کوئی مدد نہیں چاہی۔ سوال یہ ہے کہ پائلٹ نے ایسا کیوں کیا؟

طیارے کے انجنوں میں آگ لگنے یا پرندوں سے ٹکرانے کی بھی کوئی اطلاع پائلٹ کی جانب سے نہیں آئی۔

آخری مرتبہ بلند ہونے کی کوشش میں طیارے کی بلندی 1800 فٹ سے زیادہ نہیں ہوپائی تھی جس کے بعد یہ لینڈنگ کی دوسری کوشش میں آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا۔

ائیرکرافٹ ایکسیڈنٹ انوسٹی گیشن بورڈ کے ارکان نے جائے حادثہ کا دورہ کیا ہے اور شواہد جمع کیے ہیں، اس کے علاوہ بورڈ کے ارکان نے ریڈار کنٹرول روم سے بد قسمت طیارے سے متعلق تمام ریکارڈنگ، لاگ بُک اور ویڈیو ریکارڈنگ حاصل کرلی ہے ۔

اس سے پہلے حادثے میں بچ جانےوالے مسافر محمد زبیر نے بھی بتایاتھا کہ جہاز تھوڑا سا رن وے پر چلا پھر پائلٹ نے جہاز اوپر اڑا لیا، 10 سے 15 منٹ جہاز اوپر ہی رہا پھر پائلٹ نے دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کی لیکن دو سے تین منٹ بعد طیارہ کریش کرگیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز قومی ائیرلائن پی آئی اے کی پرواز کو پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں جاں بحق افراد کی تعداد 97 ہوگئی جب کہ صرف 2 مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

لاہور سے کراچی آنے والی قومی ائیرلائن کی پروازپی کے 8303 ائیرپورٹ کے قریب آبادی پر گر کر تباہ ہوگئی جس میں 91 مسافر اور عملے کے 8ارکان سوار تھے۔

محکمہ صحت کے مطابق 66 لاشوں کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا جن میں 20 خواتین، 43 مرد اور 3 بچے شامل ہیں۔

مزید خبریں :