27 مئی ، 2020
پہلا منظر
"وقار بھائی، ابو کی طبیعت خراب ہے، دل کے مریض ہیں، عمر ستر سال سے زائد ہے، کل سے سانس لینے میں تکلیف ہے، اسپتال لے جانا ضروری ہو گیا ہے لیکن کہیں 'کرونا میں تو نہیں ڈال دیں گے؟
دوسرا منظر
"رندھی ہوئی آواز..... وقار بھائی، امی کا انتقال ہوگیا آج صبح۔۔۔ میں ان کو ایمبولینس میں لے کر شہر بھر کے اسپتالوں میں گھومتا رہا کسی نے ایڈمٹ نہیں کیا، تھائی رائیڈ گلینڈ کی مریضہ تھی لیکن تمام اسپتالوں نے کہا کہ ایمرجنسی فل ہے، ایم ایم آئی اسپتال سے لے کر آغا خان اور لیاقت نیشنل سمیت شہر کے کسی اسپتال نے ایڈمٹ نہیں کیا کہ بیڈ خالی نہیں ہیں اور ایمرجنسی میں جگہ نہیں ہے"۔
تیسرا منظر
وزیر اعلی سندھ کا اعلامیہ
"اس وقت صوبے میں کورونا وائرس سے متاثر 927 مریض مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، 235 کی حالت تشویشناک ہے جب کہ 42 وینٹیلیٹر پر ہیں"۔
چوتھا منظر
پاکستان کے ایک معتبر ترین ڈاکٹر کا آج صبح وائس میسج
"السلام علیکم وقار، امید ہے خیریت سے ہوں گے، اس وقت کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ جو ڈاکٹروں کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ شہر کے تمام اسپتالوں کے ICUs فل ہوچکے ہیں، بمشکل کسی مریض کو چند گھنٹے ایمرجنسی میں رکھ کر'کوویڈ آئی سی یو' میں شفٹ کیا جا رہا ہے۔۔۔۔اگر بقول وزیر اعلی کے بیڈ خالی ہیں تو وہ ہمیں بھی بتائے جائیں تاکہ ہم مریضوں کو وہاں پر ریفر کر سکیں"۔
یہ صرف آج کے مناظر یا کالز میں سے چند ایک ہیں جو شاید موجودہ صورت حال کی تھوڑی سی عکاسی کر سکیں، ایک طرف روز بروز بڑھتے ہوئے کرونا وائرس کے کیسز کی وجہ سے اس مرض کے مخصوص وارڈز میں گنجائش تقریبا ختم ہو چکی ہے اور دوسری طرف افواہیں اور ڈس انفارمیشن ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، سوائے ان لوگوں کے جن کا کوئی عزیز کرونا وائرس سے متاثر ہوکر سانس لینے سے قاصر ہو جائے اور وہ اسے لے کر دربدر بھٹکنے پر مجبور ہوں، باقیوں کے لیے یہ یہودونصاری کی ایسی سازش ہے جس کے ذریعے وہ نجانے کیا حاصل کر رہے ہیں، کیونکہ بقول ان سازشی تھیوریاں پھیلانے والوں کے، "عالمی ادارے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کو کرونا کے مریض بڑھانے کی عوض کروڑوں ڈالر ادا کر رہے ہیں"۔
اب آ جائیں اس بات پر کہ کہیں کرونا میں تو نہیں ڈال دیں گے
میرے عزیز ہم وطنو!
جس حساب سے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے خاص طور پر ہماری اپنی مہربانیوں کی وجہ سے، اس حساب سے کسی کو ان کی تعداد بڑھانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ اب تو اسپتالوں میں ایسے مریضوں کو رکھنے کی گنجائش ہی ختم ہوچکی ہے اور خدا نہ کرے لیکن موجودہ صورتحال حال یہ بتا رہی ہے کہ ایک ہفتے کے بعد اسپتالوں پر اس لئے حملے کیے جا رہے ہوں گے کہ ہمارے مریضوں کو داخل کیوں نہیں کیا جا رہا۔
ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرادوں کہ گردوں، دل، دماغ، اور ہڈیوں کی بیماریوں میں مبتلا مریض بھی کرونا وائرس سے اسی طرح متاثر ہوسکتے ہیں جیسے کہ صحت مند افراد بلکہ دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات شاید اس لئے بھی زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ ایسے لوگوں کی قوت مدافت صحت مند افراد کے مقابلے میں نسبتا کم ہوتی ہے۔
اب ایسی صورتحال میں جب کہ مریض اور ان کے اہل خانہ اسپتال جانے سے کترا رہے ہوں تو ایسے مریضوں کی گھروں میں اموات یا قریب المرگ حالت میں اسپتال جا کر کر جاں بحق ہونے کے امکانات کتنے زیادہ ہوچکے ہیں اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔
خدارا احتیاط کیجیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعات اور بھیڑبھاڑ والی جگہ پر نہ جائیں، گھرسے باہر نکلتے وقت کوئی بھی ماسک ضرور لگائیں، صابن سے باربار ہاتھ ضرور دھوئیں یا سینیٹائیزر کا استعمال کریں اور اور اطمینان رکھیں کہ ان احتیاطوں سے آپ کے ایمان یا مسلمان ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔