28 مئی ، 2020
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کو یقین تھا کہ وزیر اعظم عمران خان شوگر اسکینڈل کی انکوائری میں سنجیدگی نہیں دکھائیں گے اور جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی کی جرات نہیں کریں گے۔
مجھے یقین تھا کہ شوگر اسکینڈل کی انکوائری میں جہانگیر ترین کا نام ضرور آئے گا اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہو گی۔ عید سے چند دن قبل حکومت کی طرف سے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا اعلان کر دیا گیا جس پر اپوزیشن بھی حیران رہ گئی لیکن اپوزیشن نے یہ کہہ کر اس رپورٹ کی اہمیت سے انکار کر دیا کہ کمیشن نے وزیراعظم عمران خان کا بیان کیوں ریکارڈنہیں کیا؟
وزیر اعظم کا بیان ریکارڈ کر لیا جاتا تو بہت اچھا ہو جاتا لیکن اس کے باوجود ہم شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے اگلے ہی دن رمضان المبارک کا آخری جمعہ تھا اور اس جمعۃ الوداع کے دن کراچی میں پی آئی اے کے ایک ہوائی جہاز کو حادثہ پیش آگیا۔
پوری قوم غم والم میں ڈوب گئی اور شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ سے میڈیا کی توجہ ہٹ گئی لیکن اس ناچیز کی ناقص رائے میں یہ رپورٹ مستقبل قریب میں پاکستان کی سیاست پر اہم اثرات مرتب کرے گی۔ ہم عمران خان سے کئی معاملات پر لاکھ اختلاف کریں لیکن انہوں نے کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لاکر ایک بہت بڑا خطرہ مول لیاہے۔ اگر انہوں نے کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں شوگر مافیا کے خلاف کارروائی نہ کی تو ان کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی آ سکتی ہے کیونکہ انہوں نے اس رپورٹ کے ذریعہ مسلم لیگ (ق) کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین گروپ کو بھی ناراض کر لیا اور ان دونوں کے پاس قومی اسمبلی کے کم از کم ایک درجن اراکین کی مکمل حمایت موجود ہے۔ شوگر کمیشن کی انکوائری رپورٹ جہانگیر ترین کے ملکیتی جے ڈی ڈبلیو کی مبینہ ہیرا پھیریوں کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی نااہلی کو بھی سامنے لیکر آئی ہے۔
اگر عمران خان نے عثمان بزدار کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تو اپوزیشن پر ان کی اخلاقی برتری قائم ہو جائے گی اور یوں پنجاب میں وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرکے عمران خان مرکز میں آسانی سے اپنی حکومت بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔
انہوں نے شوگر کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز نہ کیا تو بہت جلد وہ خود مشکلات کے بھنور میں پھنس سکتے ہیں لیکن یاد رہے کہ عمران خان حکومت میں نہ بھی رہے تو ان کے دورِ حکومت میںبنائے گئے شوگر کمیشن کی رپورٹ میں شوگر مافیا کیخلاف بنائی گئی چارج شیٹ کبھی ختم نہ ہو پائے گی۔
ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کردہ سات رکنی انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں سب سے زیادہ قابل تحسین پہلو یہ ہے کہ کمیشن میں ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب شامل ہیں لیکن کمیشن نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی۔ کمیشن میں اسٹیٹ بینک،ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے نمائندے موجود تھے لیکن کمیشن نے ان اداروں کے کردار پر بھی کھل کر تنقید کی کیونکہ شوگر مافیا نے ان اداروں کی نااہلی اور ملی بھگت سے عوام کو لوٹا۔
13مئی کو جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کی موجودگی میں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ شوگر کمیشن جہانگیر ترین کے قریب سے بھی نہیں گزرے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں لکھ کر دیتا ہوں پرویز الٰہی کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے لیکن جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔ میں نے رانا صاحب سے کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ ترین کے خلاف کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔
میرے یقین کی وجہ شوگر انکوائری کمیشن کی ساخت تھی۔ اس کمیشن کے اراکین اور خاص طور پر واجد ضیا کو ثابت کرنا تھا کہ وہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کام کرتے ہیں اور اگر آپ کمیشن کی رپورٹ کو غور سے پڑھیں تو یہ رپورٹ واقعی غیر جانبداری سے تیار کی گئی ہے۔ میں اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ کمیشن کو وزیر اعظم عمران خان کا بیان ریکارڈ کرنا چاہئے تھا لیکن کمیشن نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وفاقی وزیر اسد عمر اور عبدالرزاق دائود کے متعلق جو کچھ لکھ دیا ہے اس کہ بعد ان حضرات کو خود ہی اپنے عہدے چھوڑ دینے چاہئیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو کمیشن نے بلایا لیکن وہ نہیں آئے۔ وہ بیان ریکارڈ کرا دیتے تو ان کیلئے اچھا ہوتا انہوں نے بیان ریکارڈ نہ کرا کر اپنا نقصان کیا۔ کمیشن نے ٹھوس دستاویزی شہادتوں کی مدد سے جہانگیر ترین کے جے ڈی ڈبلیو گروپ کی مبینہ کرپشن کو بے نقاب کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح کچھ لوگوں نے ایک متوازی اسٹاک ایکسچینج قائم کر رکھی تھی جہاں وہ چینی کی قیمتوں پر سٹہ بازی کرتے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے تھے۔
اس رپورٹ کے پیرا 422کے مطابق 2017-18میں اسپیشل برانچ پنجاب نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ کئی شوگر ملیں گنے کے کاشتکاروں کو کم از کم امدادی قیمت بھی ادا نہیں کر رہیں۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب اسپیشل برانچ کے ذریعہ اس معاملے پر روزانہ رپورٹ تیار کرتے تھے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا کاشت کاروں کو امدادی قیمت بہت کم ملی۔
خیبر پختونخوا اور سندھ میں اسپیشل برانچ نے اس معاملے پر کبھی کوئی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو نہیں دی۔ شوگر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کم از کم یہ اعتراف تو کر لیا کہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ کے طور پر کاشت کاروں کے ساتھ شوگر مل مالکان کے ظلم وستم پر آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ ان کے اپنے خاندان کا بھی یہی کاروبار تھا۔
اُس زمانے کے ہوم سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کاشت کاروں کی شکایت پر کتنے مل مالکان کے خلاف مقدمے دج کرائے تھے۔
جب سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیدیا کہ گنے کی قیمت 172روپے فی 40کلو گرام ہو گی، 160روپے مل مالکان اور 12روپے صوبائی حکومت ادا کریں گے تو شہباز شریف پر خاندان کے اندر سے دبائو آیا کہ آپ بھی صوبائی حکومت کی طرف سے امدادی قیمت ادا کریں لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور معاملہ ان کے ا ستعفے تک پہنچ گیا۔ شہباز شریف خاندان کے دبائو میں نہ آئے ورنہ اس شوگر کمیشن کی رپورٹ میں ان کا ذکر خیر نہ آتا۔
گزارش ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس آ رہا ہے۔ اپوزیشن اس اجلاس میں شوگر کمیشن کی رپورٹ پر تفصیلی بحث کا مطالبہ کرے تاکہ عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے والوں کو سزا مل سکے اور حکومت کو چاہئے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل شہباز شریف کو جیل میں ڈالنے کے بجائے شوگرمافیا کے خلاف کارروائی میں ان کاتعاون حاصل کرے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔