23 مئی ، 2020
ویسے تو شوگر انکوائری کمیشن کے انیس نکاتی ٹی او آرز صرف رواں سال کے چینی بحران سے متعلق تھے لیکن اپنے ساتھ اپوزیشن کو شریکِ جرم بنانے کے لئے یہ اچھا ہوا کہ کمیشن نے حکومت کی ایما پر سابقہ ادوار کا بھی احاطہ کیا۔
یہ بات تو ہر پاکستانی کے علم میں تھی کہ شوگر ملوں کے کاروبار میں پیسہ بٹورنا اور کسان سے لے کر عام پاکستانی تک کو لوٹ کر سالانہ اربوں روپے کمانا یقینی ہے کیونکہ شریف فیملی ہو یا زرداری فیملی، جہانگیر ترین ہوں یا خسرو بختیار، ہمایوں اختر ہوں یا ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، سب سیاسی سیانے اس کاروبار کی طرف آتے رہے۔
ہم جیسے طالبعلم برسوں سے چیختے رہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں شوگر مل مافیا نے کاٹن، جو پاکستان کیلئے زرمبادلہ کمانے کا اچھا ذریعہ ہے اور گنے کی نسبت پانی بھی کم مانگتا ہے، کی پیداوار کم کرکے کسان کو گنا اگانے پر مجبور کیا اور اسی لئے صحافت اور سیاست کے میدانوں میں شوگر مافیا کی باقاعدہ ٹرم استعمال ہونے لگی۔
تاہم اب انکوائری کمیشن کی رپورٹ نے نہ صرف مذکورہ رائے پر مہر تصدیق ثبت کر دی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ لوگ تو تہہ در تہہ فراڈ کر رہے تھے۔ ہم تو صرف سبسڈی کا رونا رو رہے تھے کہ ہر سال شوگر مل مالکان کو چینی ایکسپورٹ کرنے کیلئے سبسڈی کیوں دی جاتی ہے اور اس کی جگہ گنے کی فصل کم کرکے کاٹن جیسی کوئی دوسری فصل کیوں نہیں اگائی جاتی لیکن اب پتا چلا کہ یہ لوگ تو چینی کی پیداوار پر آنے والے خرچے کو بھی زیادہ دکھا رہے تھے، پھر ایکسپورٹ میں بھی فراڈ کر رہے تھے، گنے کے پھوگ (Bagasse)وغیرہ کو بھی آمدنی میں ظاہر نہیں کرتے اور اوپر سے جعلی قلت پیدا کرکے بھی غریب عوام کو لوٹتے ہیں۔
اس رپورٹ سے اس رائے پر بھی مہر تصدیق ثبت ہو گئی کہ چینی کے میٹھے حمام میں سب ننگے ہیں لیکن اس معاملے میں بھی سبقت پی ٹی آئی کو حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی ہی رہی لیکن اس وقت اس مافیا کے زیادہ افراد مثلاً جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور ہمایوں اختر وغیرہ سب پی ٹی آئی میں جمع ہیں۔
یہ بھی پتا چلا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی شوگر مافیا قوم کو لوٹتا رہا لیکن جس رفتار سے اور جس مقدار میں تحریک انصاف کی حکومت میں شوگر مافیا کو نوازا یا قوم کو لوٹا گیا، اس کی مثال ماضی کی حکومتوں میں بھی نہیں ملتی۔ ہم تو یہ رونا رو رہے تھے کہ چینی کی بیرونِ ملک ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی گئی اور پنجاب حکومت نے اس مافیا کو اربوں روپے کی سبسڈی کیوں دی لیکن اس رپورٹ کے مطابق تو تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد شوگر مافیا نے مختلف گھپلوں کے ذریعے ٹوٹل 170ارب روپے ناجائز طریقوں سے لوٹے۔
اب تماشا یہ ہے کہ فائدہ اٹھانے والوں کا تو ذکر ہو رہا ہے لیکن فائدہ دینے والوں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے حالانکہ اس رپورٹ میں فائدہ دلانے والوں کا بھی واشگاف الفاظ میں ذکر ہے۔ اس رپورٹ کے صفحہ 29پر اسد عمر صاحب کے بیان کا ذکر ہے جس میں انہوں نے چینی کی برآمد کے فیصلے کی توجیہ پیش کی ہے لیکن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان کی منطق کو غیرتسلی بخش (Not Convincing)قرار دیا ہے۔
اسی طرح تجارت کیلئے وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود کے بیان کو بھی رپورٹ کا حصہ بنا دیا گیا ہے جس میں انہوں نے ایکسپورٹ کی اجازت کے دلائل دیے لیکن رپورٹ میں ان کے بیان کو بھی غیرتسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سبسڈی دینے کیلئے جو جواز پیش کئے اس پر بھی کمیشن نے سوالات اٹھائے ہیں۔
اسی طرح حکومتی ادارے شوگر ایڈوائزری بورڈ کے بارے میں کمیشن نے لکھا ہے کہ وہ چینی کی برآمد کو معطل کرنے کا پابند تھا لیکن اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔ اسی طرح ایک اور حکومتی ادارے یعنی مسابقتی کمیشن کو بھی یہ کہہ کر ذمہ دار قرار دیا گیا ہے کہ وہ چینی کے کارخانوں کے گٹھ جوڑ سے پیدا کی گئی مصنوعی قلت کو ختم کرنے کا پابند تھا لیکن خاموش تماشائی بنا رہا۔
اس رپورٹ کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ اسد عمر اور رزاق دائود وغیرہ نے ایسے عالم میں چینی کی برآمد کی اجازت دی کہ اس کیلئے کنوینسنگ دلائل موجود نہ تھے۔ عثمان بزدار صاحب نے ایسے انداز میں سبسڈی دی کہ اس کا کوئی جواز موجود نہ تھا جبکہ دو حکومتی اداروں یعنی شوگر ایڈوائزری بورڈ اور مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے اپنا فرض ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے شوگر مافیا کو لوٹ مار کا موقع ملا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم صرف شوگر ملوں کے خلاف کارروائی کریں گے یا ان کو اس لوٹ مار کا موقع فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی؟
اور اگر صرف فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور فائدہ دلانے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا تو کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں ہوگا؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلی فرصت میں تمام شوگر مل مالکان سے یہ لوٹی گئی رقم واپس لے کر ان کاشتکاروں میں تقسیم کی جائے جن سے گنا خریدا گیا۔
اسی طرح آج سے ان ملوں کو اس قیمت پر چینی فروخت کرنے پر مجبور کر دیا جائے جو اس رپورٹ کے مطابق مناسب لگتی ہے۔ حکومت ابھی سے یہ یقینی بنائے کہ اگلے سال کے لئے صرف اتنا گنا اگایا جائے جتنی ملک کی ضرورت ہو اور گنے کے بجائے کاٹن کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اگر مکمل انصاف کرنا ہے تو جس طرح کہ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے، اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ہر شوگر مل مالک کے خلاف ان قوانین کے تحت کارروائی کا آغاز کیا جائے جو کمیشن نے تجویز کئے ہیں۔ لیکن پورا انصاف تب ہوگا جب ان کو لوٹ مار کا موقع فراہم کرنے والے وزرا اور سرکاری اداروں کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جائے لیکن اگر سلیکٹیو کارروائی کی گئی تو یہ نہ صرف ظلم ہوگا بلکہ آگے جاکر اس کا انجام بھی نہایت بھیانک ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔