دنیا
Time 29 مئی ، 2020

امریکا: سیاہ فام شخص کی ہلاکت کیخلاف احتجاج، پولیس اسٹیشن نذر آتش

امریکا کی ریاست مِنی سوٹا میں سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ  کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف ہونے والے احتجاج میں شدت آگئی۔

امریکی میڈیا کے مطابق سیاہ فام شہری کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد منی سوٹا کے شہر مینی پولِس میں ہنگامہ آرائی میں شدت آگئی ہے اور مشتعل مظاہرین نے پولیس اسٹیشن سمیت متعدد عمارتوں کوآگ لگادی ہے۔

پولیس اور مشتعل مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ گزشتہ روز بھی جاری رہا جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسوگیس کے شیل فائر کیے گئے۔

ریاست کے گورنر ٹم والز نے شہر میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے 500 نیشنل گارڈز تعینات کردیے ہیں۔

دوسری جانب پولیس نے مظاہروں کی کوریج کرنے والی امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ٹیم کو حراست میں لے لیا۔

پولیس کی جانب سے صحافیوں کی ٹیم کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب مظاہرے کی براہ راست کوریج کی جارہی تھی، صحافی کی گرفتاری کا منظر بھی براہ راست ٹی وی اسکرین پر دکھایا گیا تاہم پولیس نے صحافیوں کے احتجاج پر گرفتار افراد کو چند گھنٹوں بعد رہا کیا۔

اس حوالے سے امریکی صحافی کرسٹین امان پور نے کہاکہ صحافیوں کو ڈکٹیٹرشپ میں گرفتار کیا جاتا ہے، ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔

صحافیوں کی گرفتاری پر ریاست منی سوٹا کے گورنر نے بھی معذرت کی۔

پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کی موت پر مظاہروں کا سلسلہ دوسری ریاستوں میں بھی پھیل گیا ہے۔

شکاگو، لاس اینجلس اور نیویارک میں بھی سیاہ فام شہری کی ہلاکت پر احتجاج کیا گیا جبکہ نیویارک میں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں اور 70 سے زائد افراد کوحراست میں لیا گیا۔

اُدھر ریاست منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کے اعلان کے باوجود سیاہ فام شہری کی ہلاکت میں ملوث پولیس افسران پر تاحال کوئی چارج نہیں لگایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں ریاست منی سوٹا میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے اُس وقت شروع ہوئے جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں سڑک پر جارج فلوئیڈ نامی ایک 46 سالہ سیاہ فام شخص کی گردن کو ایک پولیس اہلکار اپنے گھٹنے سے دبا رہا ہے جب کہ وہ شخص گُھٹتی ہوئی آواز میں کہ رہا ہے کہ 'مجھے سانس نہیں آرہی، مجھے قتل مت کرو'۔

رپورٹس کے مطابق واقعے کے کچھ دیر بعد اس شخص کو ایمبولینس میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی موت واقع ہوگئی تھی۔

مزید خبریں :