Time 01 جون ، 2020
بلاگ

کورونا وائرس اور سازشی تھیوری!

کورونا وائرس اور سازشی تھیوری!—فوٹو فائل

ابھی تک میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں، جو کورونا کی عالمی وبا سے متعلق کسی سازشی تھیوری پر یقین نہیں رکھتے لیکن کبھی کبھی ایسی باتیں سامنے آ جاتی ہیں کہ ان لوگوں کی صف سے نکلنے کو دل کرتا ہے اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ گھنٹوں کھلی ہوا میں آنکھیں بند کرکے بیٹھوں۔

ذہن کو تمام پرانے خیالات، سوچوں اور معلومات سے خالی کروں اور پھر ذہنی تازگی کے ساتھ کورونا سے پیدا ہونیوالی صورت حال پر غور کروں۔ چین میں جب کورونا کی وبا پھیلی تو وہاں کے میڈیا نے اسے ایک امریکی سازش قرار دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ کورونا وائرس مغرب میں کسی لیبارٹری میں تیار کرکے چین میں کھلاڑیوں کے ایک دستے کے ساتھ فلاں پرواز سے چین میں بھیجا گیا اور پھر اسے پھیلایا گیا۔

پھر جب کورونا اٹلی اور اسپین سمیت مغربی ممالک اور پھر امریکہ میں پھیلا تو کسی اور نے نہیں بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے براہِ راست چین پر یہ وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ صدر ٹرمپ میرے خیال میں جدید تاریخ میں پہلے صدر ہیں، جو اپنے بیانات میں سفارتکاری اور ریاست کاری کے آداب کو ہرگز ملحوظ نہیں رکھتے۔

میں انہیں عالمی سامراج کا ’’پھٹا ڈھول‘‘ قرار دیتا ہوں، ان کے منہ میں جو آتا ہے، وہ کہہ دیتے ہیں۔ بہرحال چین نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام لگایا اور امریکی صدر جواباً چین کے خلا خود میدان میں ا ٓگئے۔ ہم نے بھی دونوں طرف کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اسے اس ’’تجارتی جنگ‘‘ سے جوڑا جو امریکہ اور چین کے درمیان جاری تھی۔

شاید تاریخ میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے، جس کے بارے میں امریکہ کے ممتاز فلسفی اور دانشور ول ڈیورنٹ نے کہا تھا کہ ’’جو باتیں ہم سے پہلے والے لوگوں کے سمجھ میں آتی تھیں، انہیں آج ہم سمجھنے سے قاصر ہیں‘‘۔ جی ہاں! ہم آج تاریخ کے اس مرحلے پر ہیں کہ جو باتیں ہم سے پہلے والے لوگوں کے سمجھ میں آتی تھیں۔

انہیں آج ہم سمجھنے سے قاصر ہیں اور ہمارے پاس جو دلائل بھی ہیں وہ ہمیں اس سوشل میڈیا نے فراہم کیے ہیں، جسے امریکہ اور اس کے مغربی حواری کنٹرول کرتے ہیں۔ جی ہاں! میں بھی انہی لوگوں میں شامل ہوں، جو سازشی تھیوری کو محض اس وجہ سے مسترد کرتے ہیں کہ چین نے امریکہ پر الزام لگایا اور امریکہ نے جواب میں چین پر الزام لگایا۔

لہٰذا سازشی تھیوری ازخود بحث کے قابل نہیں رہی لیکن یہ معاملہ ختم نہیں ہوا کیونکہ کچھ ایسی خبریں آ رہی ہیں، جو ہمیں غیرجانبدار رہنے پر ملامت کر رہی ہیں۔کورونا کی عالمی وبا کی انتہائی مایوس کن صورتحال میں کچھ خبریں ایسی آئی ہیں، جنہوں نے ہمیں گھر میں قید ہونے کے باوجود اپنی پرانی عادتوں کی وجہ سے پریشان کر دیا ہے۔

ایک خبر یہ ہے کہ کورونا نے دنیا کے تمام ملکوں کی معیشت کیساتھ ساتھ عالمی معیشت کو تباہ کر دیا ہے لیکن جو ادارے پہلے سے کھرب پتی تھے، انکی دولت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ان کھرب پتی اداروں کی دولت میں 434ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے اور وہ بھی کورونا کے تین ماہ کے دوران۔

امریکن ٹیکس فیئر ( اے ٹی ایف ) کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے 600کھرب پتی افراد کی آمدنی اور دولت میں 15فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں کورونا کے سب سے زیادہ 18لاکھ مریض ہیں اور سب سے زیادہ کورونا سے ایک لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں لیکن امریکی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔

اسکے علاوہ ’’فیس بک‘‘ کے سی ای او مارک زکر برگ اور دیگر آئی ٹی کمپنیوں کے مالکان کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’ایمازون‘‘ نے بھی آن لائن بزنس کی وجہ سے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا منافع کمایا ہے۔

کورونا کی عالمی کساد بازاری کی وجہ سے دنیا کی ساری دولت امریکہ اور اسکے اتحادی مغربی ممالک میں منتقل ہوئی اور وہ اپنے ملکوں میں ان چھوٹی کمپنیوں اور اداروں کو زر تلافی دینے کیلئےتیار ہیں، جن کے کاروبار کورونا کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ وہ اپنی حکومتوں کو ان دہاڑی دار مزدوروں کا معاوضہ بھی ادا کرنے کیلئے مدد کر رہے ہیں۔

جنکے روزگار کورونا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہوئے کیونکہ وہ یہ سب کچھ کرنے کے قابل ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ کورونا کی عالمی وبا کے دوران قومی اور عالمی معیشتوں کی تباہی کے دوران امریکہ اور اسکے اتحادی ملکوں کی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی والی کمپنیوں نے اپنے ملکوں کی معیشت کو سنبھالا دیا اور دنیا کی ساری دولت سمیٹی ۔

ان حالات میں ایک اور خبر بھی سنیے۔ برطانیہ نے ’’5جی کلب‘‘ کے 10 یورپی ممالک سے کہا ہے کہ وہ ملکر ’’5جی‘‘ ٹیکنالوجی پر کام کریں اور چین کی کمپنی ’’ہوواوے‘‘ پر انحصار ختم کریں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر ٹیکنالوجی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی ہے تو وہ ٹھیک ہے اور اگر چین یا کسی اور ملک کی ہے تو وہ قابل قبول نہیں کیونکہ ٹیکنالوجی دنیا پر قبضے کا ہتھیار ہے۔

اب آپ فیصلہ کریں کہ سازشی تھیوری کو درست تسلیم کیا جائے یا نہیں جبکہ امریکہ اور یورپ میں بل گیٹس کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور اسے تاریخ انسانی کا سب سے قابلِ نفرت انسان قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اس نے پولیو سمیت دنیا میں کئی بیماریوں کے خاتمے کیلئے بہت زیادہ فنڈز مختص کئے اور ’’ٹائم میگزین‘‘ اپنی اسٹوری میں یہ بھی عندیہ دے رہا ہے کہ دنیا کی 15فیصد آبادی کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی پر بھی باتیں ہو رہی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔