اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد روک دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد 10 روز کے لیے روکتے ہوئے چینی 70 روپے فی کلو فروخت کرنے کا حکم دے دیا۔

چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بنائے گئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔

 شوگر ملز مالکان کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا الگ الگ ذکر موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ فروری میں کارروائی کے لیے ایڈہاک کمیٹی بنائی گئی، انکوائری کمیشن نے شوگر ملزکے فارنزک آڈٹ کے لیے وفاقی حکومت کو لکھا، کمیٹی نے تجویز دی ویسے ہی وہ کمیشن بن گیا۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا سوال نے استفسار کیا کہ اس کمیشن نے پھر کیا کہا؟ چینی کی قیمت کیوں بڑھی؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کمیشن نے 324 صفحات کی رپورٹ میں بہت زیادہ وجوہات بیان کی ہیں، کمیشن نے سفارش کی کہ ایف بی آر، ایف آئی اے، نیب کو ملزمان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پوچھا کہ کمیشن نے کیا بتایا کہ عام صارف کے لیے چینی کی قیمت کیوں بڑھی؟ چینی عام آدمی کی ضرورت ہے، حکومت کو بھی اس حوالے سے ہی اقدامات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سادہ سی بات ہے کہ عام آدمی کا بنیادی حق ہے کیونکہ 30 فیصد چینی عام آدمی کے لیے ہوتی ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عام آدمی اور کمرشل استعمال کی چینی کی قیمت کو کمیشن نے الگ الگ نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگرکمیشن نے عام آدمی کو چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا تو پھر کیا کیا؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ انکوائری کمیشن کا مقصد عام آدمی کو ریلیف مہیا کرنا نہیں بلکہ ہمارا میڈیا ٹرائل تھا، وزیراعظم کے معاون خصوصی کے ذریعے شوگر ملز مالکان کا میڈیا ٹرائل کرایا گیا، یہ میڈیا وار ہے، گزشتہ روزبھی اس حوالے سے پریس کانفرنس کی گئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ 2 سال پہلے چینی کی قیمت کیا تھی؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ نومبر 2018 میں چینی کی قیمت 53 روپے فی کلو تھی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2 سال میں چینی 85 روپے فی کلو ہوگئی۔

وکیل شوگر ملز نے کہا کہ کمیشن نے اپنے ٹی او آر سے باہر جاکر کارروائی کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے عام آدمی کی سہولت کے لیے کوئی فائنڈنگ نہیں دی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم حکومت کو نوٹس کر کے پوچھ لیتے ہیں لیکن آپ اس وقت تک 70 روپے کی قیمت پرچینی فروخت کریں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو شرط منظور ہے تو ہم آئندہ سماعت تک حکومت کو کاروائی سے بھی روک دیتے ہیں، یہ عدالت عمومی طور پرایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔

چیف جسٹس نے شوگر ملزمالکان کے خلاف کارروائی پرحکم امتناع جاری کرتے ہوئے کہا کہ عام عوام کو اگلے 10 روز تک چینی 70 روپے فی کلو فراہم کی جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وفاق عدالت کے آپشن کی مخالفت کرے گا؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے کہا کہ مخالفت نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہاں پر مفاد عامہ کا سوال سامنے آیا ہے، جس مقصد کے لیے کمیشن بنا تھا وہ ایڈریس ہی نہیں ہوا، کمیشن کو عام آدمی کو چینی کی سہولت فراہمی کے لیے کچھ کرنا تھا لیکن نہیں کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاق، کمیشن کے سربراہ واجد ضیاء، معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر، سیکرٹری داخلہ اور انکوائری کمیشن کے ارکان سمیت درخواست کےتمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

خیال رہے کہ گذشتہ دنوں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فارنزک کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظر عام پر لے آئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین، مونس الٰہی، شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ، اومنی گروپ اور عمرشہریار چینی بحران کے ذمے دار قرار دیے گئے ہیں۔

فارنزک آڈٹ رپورٹ میں چینی اسیکنڈل میں ملوث افراد کےخلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور ریکوری کرنےکی سفارش کی گئی ہے جب کہ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ریکوری کی رقم گنےکے متاثرہ کسانوں میں تقسیم کردی جائے۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں حکومت نے چینی پر 29 ار ب روپے کی سبسڈی کا معاملہ قومی احتساب بیورو(نیب) اور ٹیکس سے متعلق معاملات فیڈرل بورڈ آف ریونیو( ایف بی آر) کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

لیکن شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن کا مؤقف ہے کہ چینی انکوائری کمیشن نے چینی کی قیمتوں میں اضافے اور بحران کی تحقیقات کے دوران قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

گذشتہ دنوں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ چینی افغانستان ایکسپورٹ کے معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گی جب کہ مسابقتی کمیشن 90 روز میں چینی کےکاروبار میں گٹھ جوڑکی تحقیقات کرےگا اور اسٹیٹ بینک کو بھی ایسے معاملات میں 90 روز میں کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔

مزید خبریں :