12 جون ، 2020
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماداظہر نے قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کا وفاقی بجٹ پیش کردیاہے، اس دوران وفاقی وزیر کی جانب سے مالی سال20-2019ء کے ابتدائی 9 ماہ کی حکومتی کارکردگی کا جائزہ بھی پیش کیا گیا۔
وفاقی وزیر حماداظہر کا کہنا تھا کہ ہم نے مالی سال 20-2019ء کا آغاز پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کیا اور ہمارے مناسب فیصلوں کی بدولت معیشت کو استحکام ملا اور گذشتہ مالی سال 19-2018ء کے پہلے 9 ماہ کے مقابلے میں اہم معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔
حماد اظہر کے مطابق مالی سال 20-2019ء میں جاری کھاتوں کے خسارے میں 73 فیصد کمی کی گئی جو کہ 10ارب ڈالر سے گھٹ کر 3ارب ڈالر رہ گیا جب کہ تجارتی خسارے میں 31 فیصد کمی ہوئی جو کہ 21 ارب ڈالر سے کم ہوکر 15 ارب ڈالر ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں بجٹ کا خسارہ 5 فیصد سے کم ہو کر 3.8 فیصد رہ گیا جب کہ بنیادی خسارہ 10 سالوں میں پہلی بار مثبت ہوکر مجموعی قومی پیداوار کے 0.4 فیصد رہا۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ اس مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ٹیکس آمدن میں 17 فیصد اضافہ ہوا اور ہم 4 ہزار 800 ارب کا بڑا ہدف حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھے جب کہ نان ٹیکس ریونیو میں 134 فیصد کا اضافہ ہوا۔
حماد اظہر کاکہنا تھا کہ حکومت نے اس مالی سال میں 6 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کی ادائیگی کی جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 4 ارب ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے بھاری قرضوں کے باعث ہم نے اپنے دو سال میں 5 ہزار ارب کا سود بھی ادا کیا جس سے خزانے پر بھاری بوجھ پڑا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا اور مالی سال 20-2019ء کے 9 ماہ میں ترسیلات زر 16 ارب ڈالر سے بڑھ کر 17 ارب ڈالر ہوگئیں۔
حماد اظہر کے مطابق حکومت کے اصلاحاتی پروگرام کو سراہتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) نے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی جب کہ معیشت کی درجہ بندی کرنے والی مشہور ایجنسی موڈیز نے پاکستانی معیشت کی درجہ بندی بی تھری منفی سے بہتر کرکے بی تھری مثبت قراردی، اس کے علاوہ بلوم برگ نے دسمبر 2019 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو دنیا کی بہترین مارکیٹس میں شمار کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے مالی سال 20-2019ء میں اسٹیٹ بینک سے ادھار لینے کا سلسلہ بند کیا اور تجارتی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا گیا جب کہ سرکاری اداروں کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور شفاف نجکاری کی گئی، اس کے علاوہ تمام صوبوں میں شفاف احتساب کے لیے اسٹرکچر اصلاحات کی گئیں۔