17 جون ، 2020
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کورونا وائرس انفیکشن کے علاج میں کارآمد ثابت ہونے والی دوا ڈیکسامیتھاسون گزشتہ کئی دہائیوں سے استعمال کی جانے والی ایک سستی دوا ہے جسے کورونا وائرس کے حملے کے بعد سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے مریضوں کو پہلے ہی کئی ممالک بشمول پاکستان میں استعمال کرایا جا رہا ہے۔
پاکستانی ماہرین کے مطابق یہ دوا پاکستان میں بھی گزشتہ 60 سالوں سے دمہ اور دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو استعمال کروائی جا رہی ہے۔
معروف پاکستانی ماہر امراض سینہ پروفیسر سہیل اختر کے مطابق ڈیکسامیتھاسون ایک کورٹی زون ہے جو کہ اسٹیرائڈ کی ایک قسم ہے جسے دمہ اور سانس لینے میں تکلیف والے مریضوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے استعمال کروایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب چونکہ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے اس دوا کی کورونا وائرس میں افادیت کا بتایا ہے تو اس دوا کا نام ہر شخص کی زبان پر ہے۔
پروفیسر سہیل اختر کا کہنا تھا دنیا بھر کے ماہرین اس دوا کو نظام تنفس میں سوزش کم کرنے یا ختم کرانے کے لیے استعمال کراتے ہیں، اس کے علاوہ اس کا استعمال الرجی کے خاتمے، جلدی بیماریوں اور حمل کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں میں بھی کروایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ دوا 1957 میں ایجاد ہوئی اور 1961 میں اس کا استعمال شروع کیا گیا۔
ڈیکسامیتھاسون عالمی ادارہ صحت کی "ضروری ادویات کی لسٹ" میں بھی شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی موجودگی ہر ملک میں ہونی چاہیے اور یہ دوا انتہائی ارزاں قیمت پر عوام کو مہیا کی جانی چاہیے۔
پروفیسر سہیل اختر نے بتایا کہ" ہم اپنے بچپن سے اس دوا کو عام طور پر استعمال ہوتے دیکھ رہے ہیں، ڈیکسا کے نام سے مشہور ہے، پاکستان کی کچی آبادیوں میں ڈاکٹروں اور اتائیوں کی پسندیدہ دوا ہے جو کہ نظام تنفس کے مریضوں کو گزشتہ 50، 60 سالوں سے عام طور پر استعمال کرائی جا رہی ہے۔
پروفیسر سہیل اختر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اس دوا کی افادیت کورونا وائرس میں مبتلا صرف ان مریضوں میں سامنے آئی ہے جنہیں سانس لینے میں انتہائی شدید دشواری ہو اور ایسے مریض یا تو آکسیجن کے محتاج ہوں یا پھر وینٹی لیٹر پر ہوں جب کہ کورونا وائرس میں مبتلا کھانسی اور بخار کے مریضوں میں اس کی کوئی افادیت سامنے نہیں آئی ہے۔
ملک کے ایک اور مشہور ماہر امراض سینہ پروفیسر جاوید خان کہتے ہیں کہ ڈیکسا میتھاسون ایک سستا اسٹیرائڈ ہے جب کہ اس وقت پاکستان میں کورونا وائرس میں مبتلا تشویشناک حالت کے مریضوں کو مہنگے اسٹرائیڈ استعمال کرائے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیکسامیتھاسون کی کرونا وائرس میں مبتلا سانس کی تکلیف والے مریضوں میں افادیت سامنےآئی ہے جس کے بعد اب پاکستانی اسپتالوں میں بھی اس سستی دوا کا استعمال کرایا جانا چاہیے۔
برطانیہ میں پریکٹس کرنے والے معروف پاکستانی فزیشن ڈاکٹر عثمان غنی کہتے ہیں کہ جب کورونا وائرس پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اس وقت انسانی جسم کا مدافعتی نظام تمام حفاظتی خلیوں کو پھیپھڑوں میں بھیج دیتا ہے جسے "سائیٹو کائین اسٹارم" کہتے ہیں جس کے نتیجے میں مریض کو سانس لینے میں شدید دشواری ہوتی ہے اور آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے اس کے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور مریض جاں بحق ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دوا "سائٹو کائین اسٹارم" کے مریضوں میں سانس کی تکلیف کو دور کرتی ہے اور جسم کے دیگر اعضاء بشمول دماغ، دل، گردوں اور دیگر حصوں کو آکسیجن کی فراہمی یقینی بناتی ہے جس کے نتیجے میں "ملٹی اورگن فیلیئر" یا اعضاء کے ناکارہ ہو جانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی ڈیکسا میتھاسون پر کی گئی تحقیق کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی ماہرین کی کمیٹی اس دوا کے فائدہ مند ہونے یا نہ ہونے اور اس کو مریضوں میں استعمال کا جائزہ لے رہی ہے۔
لیکن پاکستانی فارماسسٹس کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس دوا کی فراہمی کو یقینی بنائے اور اس کو مارکیٹ سے غائب ہونے سے روکے جب کہ عوام کو یہ دوا صرف اور صرف مستند ڈاکٹری نسخے پر ہی فراہم کی جانی چاہیے۔