پیٹرول قلت پر ہم جوڈیشل کمیشن بھی بناسکتے ہیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے پیٹرول قلت پر کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے جواب سے مطمئن نہیں۔

لاہور ہائیکورٹ میں پیٹرول کی قلت کے خلاف چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل، صوبائی اور وفاقی حکومت کے افسران عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

عدالت نے چیئرمین آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اوگرا چیئرمین کام نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں، اوگرا والوں کی وجہ سے ملک میں پٹرول کا بحران ہے، اس محکمے نے بیڑا غرق کیا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ چیئرمین اوگرا کا عہدہ انجوائے کرنے کے لیے نہیں، ادارے کام نہ کریں توعدالتوں کو نوٹس لینا پڑتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعظم نے جو میٹنگ کی اس کے منٹس کہاں ہیں؟ سرکاری کام زبانی کلامی نہیں ہوتے، جن کو ٹیلی فون کیا گیا اس کا بھی ریکارڈ موجود ہوتا ہے لہٰذا تمام دستاویزات جواب کے ساتھ کیوں نہیں لگائے گئے؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مروا دیتے ہیں اور پرنسپل سیکرٹری شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں لہٰذا آئندہ سماعت پر پرنسپل سیکرٹری ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔

جسٹس محمد قاسم خان کا کہنا تھا کہ پیٹرول کی صورتحال آج بھی ٹھیک نہیں ہوئی، حکومت اورریگولیٹری اتھارٹی کی ذمہ داری ہے کہ معاملات حل کرے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کیوں نہیں آئے؟

سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ وہ کورونا کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہو پائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کورونا کے خدشات تو ہمیں بھی لاحق ہیں مگر ہم تو کام کر رہے ہیں، عوام کے پیسوں پر مراعات لیتے ہیں کام نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں، ہم اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بھی بنا سکتے ہیں، پھر کمیشن رپورٹ کی روشنی میں کارروائی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بلیک میں پٹرول بیچ رہا ہے تو اس کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ ذخیرہ اندوزی سمیت دیگر دفعات کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ پیٹرول شارٹ کرنے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے اتفسار کیا کہ یہ بتائیں اگر پیٹرول بلیک میں فروخت ہو رہا ہے تو اس پر کون کون سے چارجز لگتے ہیں؟ جب پیٹرول بلیک میں فروخت ہو رہا تھا تو پنجاب حکومت کے کس ادارے نے کیا کارروائی کی؟

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسا قانون ہے جس کے تحت صوبائی انتظامیہ کے عہدے دار کارروائی کرسکیں، اس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ پرائس کنٹرول ایکٹ کے تحت 16 ایف ائی آر درج کیں ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کا مطلب ہے کہ صرف دو چار شہروں میں حالات خراب ہیں باقی پورے ملک میں پیٹرول ٹھیک قیمت پر فروخت ہو رہا ہے؟

واضح رہے کہ پاکستان میں یکم جون سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد سے ملک بھر میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوگیا تھا اور حکومت اب تک اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کرنے میں ناکام ہے۔

وزارت پیٹرولیم کی بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں پیٹرول بحران کا ذمے دار نجی تیل کمپنیوں کو قرار دیا ہے۔

مزید خبریں :