19 جون ، 2020
میٹروپولیٹن پولیس نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتل کی سی سی ٹی وی ٹائم لائن جاری کردی۔
فوٹیج میں ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل سے 2 روزپہلے محسن علی سید کو ایجوئیرمیں کیش مشین سے رقم نکالتے دیکھا جاسکتاہے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ جب محسن علی سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ میں قید ہوا تھا۔14 ستمبر 2010 کو بنی یہ ویڈیو تفتیش میں بریک تھرو ثابت ہوئی تھی۔
اسی روز محسن کو دوسرے ساتھی محمد کامران کےساتھ ایجوئیراسٹیشن پر دیکھا جاسکتا ہے اور اسی شام کو محسن نے ایک دکان سے چاقو خریدے تھے جن میں سے ایک ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں استعمال کیا گیا تھا۔
2 روز بعد 16 ستمبرکو قتل سے آدھا گھنٹہ پہلے محسن اور کامران کو بس اسٹاپ پر بظاہر کسی کاانتظار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
اگلی ویڈیو میں ڈاکٹرعمران فاروق قتل سے چند منٹ پہلے پیدل گھر جاتے دیکھے جاسکتے ہیں اور2 منٹ بعد محسن سید کو ان کے پیچھے بھاگتے دیکھا جاسکتا ہے جب کہ 5 منٹ بعد ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کردیا گیا تھا۔
واضح رہےکہ 10 سال بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو عمر قید کی سزا سنائی ہے جب کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ثابت ہوگیا عمران فاروق کے قتل کا حکم بانی متحدہ نے دیا تھا۔
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو برطانیہ میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 5 دسمبر 2015 کو پاکستان میں اس قتل کا مقدمہ درج کیا تھا جس میں تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار ملزمان پر قتل سمیت قتل کی سازش تیار کرنے، قتل میں معاونت اور سہولت کاری کے الزامات عائد کیے گئے جب کہ 2 گرفتار ملزمان خالد شمیم اور محسن علی نے 7 جنوری 2016 کو مجسٹریٹ کے روبرو اعترافی بیانات ریکارڈ کرائے تاہم دوران ٹرائل اپنے بیانات سے مکر گئے۔
تینوں ملزمان پر 2مئی 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی جب کہ 4 ملزمان بانی متحدہ، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو اشتہاری قرار دیا گیا۔
دوران سماعت استغاثہ کے 29 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، کیس کے برطانوی چیف انویسٹی گیٹر نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا جب کہ مقتول کی اہلیہ سمیت دیگر برطانوی گواہوں نے ویڈیو لنک پر بیانات ریکارڈ کرائے جن میں پڑوسی عینی شاہدین، پولیس حکام، فارنزک ایکسپرٹ اور پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر شامل ہیں۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے برطانیہ کو دوران ٹرائل جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد کیس میں پیشرفت ہوئی اور برطانیہ نے باہمی قانونی معاونت کے تحت شواہد فراہم کیے۔
ملزمان کی ٹریول ہسٹری، موبائل فون ڈیٹا، فنگر پرنٹس رپورٹ، مقتول کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کو بطور شواہد ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔
ملزمان کی جانب سے عارف خان، محمد بخش مہر اور ذیشان چیمہ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جب کہ ایف آئی اے کی جانب سے خواجہ امتیاز بطور اسپیشل پراسیکیوٹر پیش ہوتے رہے اور برطانوی ماہر قانون ٹوبی کیڈ مین کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے سماعت مکمل ہونے پر 21 مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 18 جون کو سنایا گیا۔