Time 18 جون ، 2020
پاکستان

ٹیم ورک کےنتیجے میں عمران فاروق کیس کے ملزمان کو سزا ملی، سربراہ یو کےکاؤنٹر ٹیرر ازم

برطانیہ کی انسداد دہشت گردی پولیس (سی ٹی سی) کے سربراہ رچرڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ ٹیم ورک کے نتیجے میں عمران فاروق  قتل کیس کے ملزمان کو سزا ملی جس پر اطمینان ہے۔

ایک بیان میں کاؤنٹر ٹیررازم کمانڈ کے سربراہ رچرڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ 10 سال تک ٹیم نے دل جمعی سے کیس کی تحقیقات جاری رکھیں، تحقیقات میں ساتھ دینے پر عمران فاروق کی اہلیہ اور خاندان کے شکرگزار ہیں۔

رچرڈ اسمتھ کے مطابق  تحقیقات کے دوران لندن پولیس نے 4 ہزار گواہان سے بات چیت کی اور ہزاروں گھنٹے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی جائزہ لیا گیا۔

دوسری جانب اسلام آباد میں  برطانوی ہائی کمشنر کرسچین ٹرنر کا کہنا ہے کہ کیس کا فیصلہ برطانیہ اور  پاکستان کےاداروں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

کرسچین ٹرنر  کے مطابق مقدمے کے اہم ملزم محسن علی سید سے متعلق برطانوی اداروں کی تحقیقات پاکستان کے ساتھ شئیرکی گئی تھیں۔

عمران فاروق قتل کیس کے تینوں ملزمان کو عمر قید کی سزا 

خیال رہے کہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے جرم میں تین مجرموں کو عمر قید کی سزا سنادی ہے جب کہ بانی ایم کیو ایم سمیت چار اشتہاری ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق قتل کیس میں جرم ثابت ہونے پر 3 مجرموں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے مقتول کے ورثاء کو ادا کرنے کا حکم دیا جب کہ بانی ایم کیو ایم سمیت چار اشتہاری ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے جائیداد ضبطگی کے احکامات بھی دیے ہیں۔

عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ بانی ایم کیو ایم نے ہی ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے احکامات جاری کیے اور قتل کا واحد مقصد بانی ایم کیو ایم کی ہدایت پر پارٹی میں سیاسی رکاوٹ دور کرنا تھا۔

عمران فاروق قتل کیس کا پس منظر

ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو برطانیہ میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 5 دسمبر 2015 کو پاکستان میں اس قتل کا مقدمہ درج کیا تھا جس میں تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو گرفتار کیا گیا۔

گرفتار ملزمان پر قتل سمیت قتل کی سازش تیار کرنے، قتل میں معاونت اور سہولت کاری کے الزامات عائد کیے گئے جب کہ 2 گرفتار ملزمان خالد شمیم اور محسن علی نے 7 جنوری 2016 کو مجسٹریٹ کے روبرو اعترافی بیانات ریکارڈ کرائے تاہم دوران ٹرائل اپنے بیانات سے مکر گئے۔

تینوں ملزمان پر 2مئی 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی جب کہ 4 ملزمان بانی متحدہ، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو اشتہاری قرار دیا گیا۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے برطانیہ کو دوران ٹرائل جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد کیس میں پیشرفت ہوئی اور برطانیہ نے باہمی قانونی معاونت کے تحت شواہد فراہم کیے۔

ملزمان کی ٹریول ہسٹری، موبائل فون ڈیٹا، فنگر پرنٹس رپورٹ، مقتول کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کو بطور شواہد ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے سماعت مکمل ہونے پر 21 مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنا دیا گیا ہے۔

مزید خبریں :