22 جون ، 2020
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ اسپورٹس سائنسز ڈاکٹر سہیل سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ میں رسک فیکٹر ہے لیکن اس رسک کو محدود سے محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم نے 28 جون کو خصوصی طیارے سے انگلینڈ کے دورے پر جانا ہے اور روانگی سے قبل پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کی پہلی کووڈ 19 ٹیسٹنگ مکمل کر لی گئی ہے جبکہ دوسرے کووڈ 19 ٹیسٹ 25 جون کو ہوں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ اسپورٹس سائنسز ڈاکٹر سہیل سلیم نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے میڈیا سیشن میں بتایا کہ انگلینڈ روانگی سے قبل کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کے اراکین کی کووڈ 19 ٹیسٹنگ کے انتظامات کیے گئے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ پہلی ٹیسٹنگ کے انتظامات 4 اسٹیشنز پر کیے گئے جس کے نتائج توقع ہے کہ 24 جون کو موصول ہو جائیں گے اور اس کے بعد ہی کھلاڑیوں کو اپنے اپنے مقامات سے لاہور بلایا جائے گا۔
ڈاکٹر سہیل سلیم نے بتایا 25 جون کو دوسری ٹیسٹنگ ہو گی اور اس کا رزلٹ 27 جون کو موصول ہو جائے گا جس کے اگلے روز روانگی طے ہے جب کہ 26 اور 27 جون کو کھلاڑیوں کی ای سی جی اور بلڈ اسکریننگ وغیرہ بھی مکمل کی جائے گی، اس طرح اسکواڈ کو دو مرتبہ پی سی آر ٹیسٹ سے گزارا جائے گا، ساتھ ہی اینٹی باڈیز ٹیسٹ بھی ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر 24 جون کی رپورٹ میں کوئی مثبت ہوتا ہے تو اسے گھر سے نہیں بلایا جائے گا اور اگر 27 کی رپورٹ میں کوئی منفی آتا ہے تو اسے لاہور میں فوری طور پر آئسولیٹ کر دیا جائے گا، پھر تمام عمل پروٹوکولز کے مطابق کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ریاض مانیٹرنگ ٹیم کو ہیڈ کریں گے اور مسلسل رابطے میں رہیں گے، مسلسل دو مرتبہ منفی رپورٹ آنے کے بعد کرکٹر انگلینڈ میں ٹیم کو جوائن کر سکے گا جس کے بعد انگلینڈ میں وہاں کے پروٹوکولز پر عمل کیا جائے گا۔
ڈاکٹر سہیل سلیم نے بتایا کہ اسکواڈ جب انگلینڈ پہنچے گا تو پہلے دن وہ اپنے مقام پر رہائش اختیار کرے گا اور پھر اگلے روز کووڈ 19 ٹیسٹ ہوگا، قرنطینہ کے دوران ٹریننگ کی اجازت ہو گی، اس دوران ہر 5 سے 7 روز کے دوران ٹیسٹ ہو گا جبکہ سیریز کے دوران تین دن میں ٹیسٹ ہوا کرے گا۔
ڈاکٹر سہیل سلیم نے کہا کہ اسکواڈ 24 جون سے بائیو سیکیور ماحول میں ہو گا تاکہ وائرس کا لوڈ کم سے کم ہو سکے، ہوٹل میں بائیو سیکیور ماحول کے بھی پروٹوکولز بنائے گئے ہیں تاہم ایک وقت میں ایک جگہ پر تعداد کو محدود رکھا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کمروں سے لیکر ڈائننگ ایریاز تک ایس او پیز کو فالو کیا جائے گا، اسی طرح جب انگلینڈ میں ہوں گے اور وہاں مروجہ پروٹوکولز پر عمل درآمد ہو گا، سماجی فاصلوں کا خیال رکھاجائے گا، غیر متعلقہ افراد سے ملنے کی اجازت نہیں ہو گی، فیملیز تو پہلے ہی اس ٹور پر ساتھ نہیں جا رہیں۔
ڈاکٹر سہیل سلیم نے کہا کہ انگلینڈ میں اگر کوئی پازیٹو آجاتا ہے تو اسے فوری طور پر آئسولیٹ کیا جائے گا۔ مسلسل ٹیسٹنگ ہو گی اور بار بار پازیٹو آنے پر وہاں ہم نے اسپتال کے حوالے سے بھی بات کی ہو ئی ہے اور پھر واپسی کے انتظامات ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے جب سیریز کے حوالے سے بات چیت کا آغاز ہوا تھا تو اس کے مقابلے میں اب صورتحال مختلف ہے، پہلے وہاں کیسز بڑھ رہے تھے اور اب انگلینڈ میں کیسز میں بتدریج کمی آرہی ہے جبکہ پاکستان میں کیسز بڑھ رہے ہیں، اس لیے اب صورتحال میں فرق آچکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو بھی مانیٹر کرنے کا موقع مل رہا ہے، اب تک ان کے رزلٹ مثبت نہیں آئے، سب نیگیٹو ہیں۔
ڈاکٹر سہیل سلیم نے بتایا کہ انگلینڈ حکام کا کہنا ہے کہ اب وہ وائرس کی شدت گزار چکے ہیں، ویسے بھی کرکٹ کونٹیکٹ اسپورٹس نہیں ہے، صرف بال کا مسئلہ ہے اس کے بھی پروٹوکولز بنائے گئے ہیں، لیکن وائرس کا رسک تو رہے گا، اسے کہیں بھی زیرو قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ صرف کرکٹ کو واپس لانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں کیونکہ کھلاڑیوں کو اور عام لوگوں کو کھیل کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صورتحال پریشان کن ہے اور اس کے لیے یہ سرگرمیاں ہونی چاہئیں، رسک فیکٹر بہت بڑا ہے، یہ جو اقدامات کیے جا رہے ہیں یا جن پر عمل کیا جائے گا وہ اس رسک فیکٹر کو محدود سے محدود کرنے کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کو بھی سپاہی کا درجہ حاصل ہے جو موجودہ حالات میں لوگوں کے لیے میدان میں آ رہے ہیں، ان کا بھی وہی کردار ہے جو دیگر لوگ موجودہ صورتحال میں فرنٹ محاز پر لڑ رہے ہیں، جس طرح عام لوگوں کے لیے دماغی مسائل ہو سکتے ہیں اسی طرح کھلاڑیوں کو بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ وبا کا مطلب ہی رسک ہے اور یہ رسک یہاں بھی ہے۔
ڈاکٹر سہیل نے مزید کہا کہ ہم نے سب سے پہلے اس حوالے سے کھلاڑیوں سے بات کی ان کے سامنے سب باتیں رکھیں کیونکہ کھلاڑیوں کے ذہنوں میں بھی رسک فیکٹر ہو گا، اس لیے ہم کھلاڑیوں کی فیملیز کے ساتھ بھی رابطے میں رہیں گے اور انہیں اپ ڈیٹ کیا جا تا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب چونکہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے اس لیے عملی طور پر کسی کو تجربہ نہیں اور جب اس سسٹم میں سب آ جائیں گے تو یقینی طور پر آسانیاں ہو جائیں گی۔