24 جون ، 2020
ٹیسٹ کرکٹر کامران اکمل نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پرفارمنس کے باوجود جب بھی پاکستان ٹیم میں انتخاب نہیں ہوتا تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں لیکن وہ پھر بھی خود کو متحرک رکھتے ہیں اور نئے سرے سے اس عزم کے ساتھ دوبارہ اچھا پرفارم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں پاکستان ٹیم میں واپس آنا ہے۔
38 سالہ وکٹ کیپر بیٹسمین کامران اکمل نے 2002 میں اپنے انٹر نیشنل کیرئیر کا آغاز کیا۔ وہ 53 ٹیسٹ، 157 ون ڈے میچز جب کہ 58 ٹی ٹونٹی انٹر نیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
کامران اکمل نے 10 برس پہلے 2010 میں انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ کھیلا جب کہ آخری ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچ اپریل2017 میں ویسٹ انڈیز میں کھیلا ۔
کامران اکمل کی اس دوران ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی اچھی رہی، کارکردگی میں تسلسل ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہی کامران اکمل اور ان کے چاہنے والوں نے یہ امید لگائی کہ وہ ٹیم میں جگہ بنا سکتے ہیں، ٹیسٹ میں نہیں تو مختصر دورانیے کی کرکٹ میں ان کی جگہ بن سکتی ہے۔
انہیں بیٹسمین کی حیثیت سے آزمایا گیا لیکن وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے پھر سلیکٹرز نے وکٹ کیپر بیٹسمین سے آنکھیں پھیر لیں۔
کامران اکمل کا کہنا ہے کہ پرفارمنس کے باوجود جب سلیکشن نہیں ہو تی تو مایوسی ضرور ہوتی ہے، پرفارمنس کے باوجود مجھے موقع نہیں مل رہا، کچھ برسوں میں جس طرح کا سلوک میرے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ، میں خود کو متحرک رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، میرا کام یہی ہے کہ میں جس سطح پر بھی کسی بھی ٹیم کی جانب سے کھیلوں، اچھا کھیلوں اور اپنی پرفارمنس برقرار رکھوں۔
کامران اکمل نے الزام لگایا کہ گزشتہ سلیکشن کمیٹی نے میرٹ پر کام نہیں کیا، پرفارمنس والوں کو نہیں چنا گیا بلکہ پسند و ناپسند کی بنیاد پر ٹیمیں تیار کی جاتی رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں مینجمنٹ میں جو لوگ اور کوچز آئے ان کی وجہ سے کرکٹ کو نقصان پہنچا ہے، پاکستان میں کھیل کے معیار کے گرنے کی وجہ پیٹرن چیف وزیراعظم عمران خان کو چیئرمین پی سی بی احسان مانی سے پوچھنی چاہیے کیونکہ احسان مانی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے انہیں دیکھنا چاہیے کہ ٹیمیں پسند و ناپسند پر کیوں بن رہی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مینجمنٹ میں شامل موجودہ لوگوں سے بات ہو ئی ہے اور مجھے بہت مثبت رسپانس ملا ہے، امید ہے کہ آئندہ جس ٹیم کا بھی انتخاب ہو گا مجھے ضرور موقع ملے گا تاہم مصباح الحق جانتے ہیں کہ پرفارمنس کی کیا قدر ہے ۔
کامران اکمل کا کہنا تھا کہ میں ٹیم میں شامل نہ بھی ہوں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ٹیم میں دو تین وکٹ کیپرز شامل ہونے سے فرق نہیں پڑتا، کوئی اچھا بیٹسمین ہے تو آپ اسے کھلائیں، کیا دیگر ٹیموں میں ایک سے زیادہ وکٹ کیپر بیٹسمین نہیں کھیلتے ؟ اچھا بیٹسمین ہونے کی وجہ سے دنیا کی ٹیموں میں تین تین وکٹ کیپرز کھیلے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قومی ٹیم میں دو وکٹ کیپرز ہوں یا ایک، میرا کام پرفارمنس دینا ہے، اچھا بیٹسمین ہونے کے باوجود اگر کسی وکٹ کیپر کو ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا تو یہ زیادتی ہے۔
کامران اکمل نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے موجودہ حالات میں میں نے ایک دن بھی ٹریننگ نہیں چھوڑی لیکن اس کے لیے سخت ایس او پیز پر عمل کیا اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت کرتا ہوں۔
انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ڈومسیٹک کرکٹ سیزن کورونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہو سکتا ہے، انگلینڈ میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی سیریز کرکٹ کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہیں، اس سے اندازہ ہو سکے گا کہ ایس او پیز اور نئے قوانین کے ساتھ کرکٹ کیسے کھیلی جا سکتی ہے اور اس کی روشنی میں ڈومیسٹک کرکٹ بھی شروع ہو سکے گی۔
وکٹ کیپر بیٹسمین کا ککہنا تھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ ضرور ہونی چاہیے، خواہ صحت اور حفاظت کے لیے کتنے ہی سخت ایس او پیز کیوں نہ بنا ئے جائیں۔
کامران اکمل نے کہا کہ انگلینڈ روانگی سے قبل کھلاڑیوں کی کورونا وائرس ٹیسٹنگ کرانے کا فیصلہ درست ہے، اس سے کھلاڑی خود کو ریلیکس محسوس کریں گے اور کھیل پر فوکس کریں گے جب کہ وقت سے پہلے انگلینڈ جانے کا فائدہ ہو گا، کھلاڑیوں کو ٹریننگ ملے گی اور ساتھ میں کنڈیشنز سے بھی ہم آہنگ ہونے کا موقع ملے گا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ کھلاڑی اب جتنا وقت گراؤنڈ میں گزاریں گے اتنا فائدہ ہے اور جو آئی سی سی نے نئی پلئینگ کنڈیشنز بنائی ہیں ان کے مطابق ڈھالنے کا موقع ملے گا۔