جعلی لائسنس کے حامل پائلٹس کی تفصیلات اب تک سامنے نہ آسکیں

وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کی جانب سے 264 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کے انکشاف پر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جعلی لائسنس کے حامل پائلٹس کی کوئی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکیں۔

وفاقی وزیر کے انکشاف کے بعد مبینہ طور پر پی آئی اے انتظامیہ نے مشتبہ لائسنس کے الزام میں 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کا اعلان بھی کردیا مگر ذرائع کے مطابق ایسی کوئی فہرست ہی نہیں بنی۔

ترجمان پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کا کہنا ہےکہ جعلی اور مشتبہ لائسنس کے حامل پائلٹوں کی لسٹ ابھی تک نہیں ملی، یہ لسٹ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے فراہم کرنی ہے۔

دوسری جانب پاکستان ائیر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن کے اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ پالپا ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ فلائنگ لائسنسز کی سختی سے مذمت کرتی ہے اور ہر اس اقدام کو سراہتی ہے جو کہ اس غیر قانونی عمل اور اس کے پیچھے چھپے حقائق اور اشخاص کو بے نقاب کرے۔ 

ترجمان پالپا کا کہنا ہے کہ سی اے اے اسٹاف کی ملی بھگت کے بغیر جعلی لائسنس حاصل کرنا ممکن نہیں۔ 

انہوں نے سوال کیا کہ باخبر ہونے کے باوجود سی اے اے نے جعلی لائسنس کے اجراء کے خلاف اب تک ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے؟ 450 پائلٹس میں سے پی آئی اے کے صرف 18 پائلٹس کے لائسنسز کی تفتیش ہوئی جن میں سے 5 کو عدالتوں سے بری الذمہ قرار دیا گیا۔

ترجمان کے مطابق پالپا نے دوران تفتیش کسی پائلٹ کی سپورٹ نہیں کی اور غیر جانب دار رہی ، پھر پالپا کو اس سلسلے میں شریک کرنا سراسر زیادتی اور میڈیا ٹرائل کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟

ترجمان نے مزید کہا کہ حالیہ اقدام سے پاکستان سول ایویشن انڈسٹڑی کو ایک شدید دھچکہ لگا ہے جس سے ساری دنیا میں ایک منفی پیغام دیا گیا ہے اور بین الاقوامی طور پر پاکستان کے شعبہ شہری ہوا بازی کو تشویش اور شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، اس سے قومی سطح پر ایک بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ غیر ذمہ دارانہ اور نامناسب رویہ جاری رہا تو دنیا بھر میں پاکستان سول ایویشن اپنا وقار اور اہمیت کھو دے گی جو شاید بحال ہونا ممکن نہ ہو ۔

کمرشل طیاروں کے پائلٹس کے پاس جعلی لائسنس ہونا ناقابل یقین ہے، امریکی صحافی

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے کاروبار سے متعلق اہم پروگرام کے میزبان رچرڈ کوئسٹ نے کہا ہے کہ ایک ملک کا اس حقیقت کو تسلیم کرنا کہ کمرشل طیاروں کے پائلٹوں کے پاس لائسنس جعلی ہیں، نہ صرف ناقابل یقین ہے بلکہ اس پر پاکستان میں طیاروں کی پروازیں محفوظ ہونے سے متعلق سنجیدہ سوالات اٹھائے جانے چاہئیں۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ 22 مئی کو گرکرتباہ ہونے والے طیارے کے پائلٹ کے پاس لائسنس موجود تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں کراچی طیارہ حادثے کی ابتدائی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے فاقی وزیر ہوابازی غلام سرور نے 264 کمرشل پائلٹس کے لائسنس کو مشکوک قرار دیا تھا۔

قومی ائیر لائن پی آئی اے نے مشتبہ لائسنس رکھنے والے تمام پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور مشتبہ لائسنس کے حامل 150 پائلٹس کو طیارہ اڑانے سے روک دیا گیا تھا۔

دوسری جانب گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے بھی پائلٹس کے جعلی لائسنس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا ہے۔

مزید خبریں :