29 جون ، 2020
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں ملزمان کی بریت کا فیصلہ معطل کرنے کی جلد سماعت کی درخواست مسترد کردی۔
سپریم کورٹ میں امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کی سماعت جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکی جس میں سندھ حکومت کی جانب سے وکیل فاروق نائیک نے دلائل پیش کیے۔
دوران سماعت وکیل سندھ حکومت فاروق نائیک نے کہا کہ ملزمان بین الاقوامی دہشتگرد ہیں اس لیے انہیں ایم پی او کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
اس پر جسٹس یحییٰ خان آ فریدی نے استفسار کیا کہ ملزمان کی بریت کے بعد آپ ان کو کیسے دہشتگرد کہہ سکتے ہیں؟
وکیل سندھ حکومت نے جواب دیا کہ ان میں سے ایک ملزم بھارت اور دوسرا افغانستان میں بھی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ کام کرتا رہا ہے۔
جسٹس یحییٰ خان آ فریدی نے ریمارکس دیے کہ ذہن میں رکھیں کہ ملزمان کو ایک عدالت نے بری کیا ہے، فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ملزمان آ زاد ہوئے تو سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔
جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ بریت کے حکم کو ٹھوس وجہ کے بغیر کیسے معطل کیا جا سکتا ہے؟ فیصلے میں کوئی سقم ہو تب ہی معطل ہو سکتا ہے۔
اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ 2 جولائی کو ایم پی او کا قانون ختم ہو جائے گا، پھرہمارے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے اس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ حکومت چاہے تو ایم پی او میں توسیع کر سکتی ہے۔
ادھر وکیل ملزمان نے عدالت سے کہا کہ ملزمان کو گھرمیں نظر بند رکھا جائے تو اعتراض نہیں ہوگا۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں سندھ حکومت کی جانب سے ملزمان کی بریت کا فیصلہ معطل کرنے کی جلد سماعت کی درخواست مسترد کردی۔
واضح رہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جس میں عدالت عالیہ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی کہ ٹرائل کورٹ کے ملزمان کی سزائیں بحال کی جائیں اور ڈینیل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت بھی بحال کی جائے۔
خیال رہے کہ امریکی صحافی ڈینیل پرل کو 2002 میں کراچی سے اغواء کے بعد قتل کردیاگیا تھا جس پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے احمد عمر شیخ کو سزائے موت اور دیگر 3 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل جب کہ 18 برس بعد 3 ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے بھی امریکی صحافی ڈینیل پرل کیس میں سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے پر سندھ حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے بہترین ذرائع بروئے کار لانے پر زور دیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر امریکا سمیت عالمی صحافتی تنظیموں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا جب کہ حکومت سندھ نے رہائی پانے والے تینوں ملزمان کو نقص امن کے قانون کے تحت 3 ماہ کے لیے حراست میں لے لیا تھا۔