02 جولائی ، 2020
اسلام آباد: منگل کو فیصل واوڈا نے 20؍ ماہ کی خاموشی ختم کی۔ ایک رپورٹر نومبر 2018ء سے ان سے اہم سوالات کا جواب پوچھنا چاہتا تھا جو واوڈا چاہتے تھے کہ ان سے نہ پوچھیں جائیں۔
واوڈا نے ٹوئٹر پر صحافی کو جواب دیا لیکن ان کا لہجہ وفاقی وزیر کی بجائے ایک بدمعاش جیسا تھا۔
انہوں نے دی نیوز کے صحافی فخر درانی کو مبینہ برا بھلا کہا اور ان کی توہین کی۔ انہوں نے ہی واوڈا کے فراڈ، مالی بے ضابطگیوں، غیر ملکی جائیدادیں چھپانے اور شہریت کی دستاویزات میں جعل سازی کے انکشافات کیے تھے۔
فخر درانی نے انہیں مختلف وقتوں میں سوالات بھیجے تاہم انہوں نے کبھی جواب نہیں دیا، صرف ایک مرتبہ کہا کہ جو کرنا ہے کرلیں۔ فخر درانی نے سرکاری ریکارڈ سامنے لا کر الزامات کے حوالے سے سوالات کیے تھے۔ عمومی صورتحال یہ ہوتی کہ اگر الزام کا سامنا کرنے والا شخص واوڈا نہ ہوتا تو زمین پھٹ جاتی، آسمان ٹوٹ کر گر جاتا اور میڈیا ملزم کی پیچھے ہی پڑ جاتا۔
واوڈا نے مکمل طور پر صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور ان پر کوئی تنقید نہیں ہوئی۔ یہ فخر درانی کیلئے مایوس کن بات تھی کیونکہ وہ طاقتور اور کمزور افراد کیلئے میڈیا کے دہرے معیار کے سخت ناقد ہیں۔
واوڈا کے معاملے میں نہ صرف میڈیا خاموش رہا بلکہ فخر درانی کی اسٹوری کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں بھی ایک کیس گزشتہ 6؍ ماہ سے التوا کا شکار ہے۔ مختلف عدالتوں میں بھی اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
نیب بھی اپوزیشن والوں کی پیچھے تو لگا ہوا ہے لیکن واوڈا جیسے طاقتور وزراء کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ فخر درانی کو مایوسی ہوئی جہاں معصوم کو تو کرپٹ قرار دیدیا جاتا ہے لیکن طاقتور کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔
اسی مایوسی کا شکار ہو کر انہوں نے اپنی خبریں ٹوئٹر پر دینا شروع کر دیں جن کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے مایوسی کے عالم میں اینکرز سے کہا کہ وہ واوڈا کیخلاف پروگرام کریں، ثبوت فراہم کرنے کے وعدے کیے۔
انہوں نے واوڈا کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ اگر الزامات بے بنیاد ہیں تو نفی ہی کر دیں۔ بالآخر منگل کو واوڈا نے جواب دینے کا فیصلہ کیا لیکن یہ جواب فخر درانی کی رپورٹس کے بارے میں نہیں بلکہ فخر کو دھمکیاں لگانے کیلئے تھا۔ واوڈا کا کہنا تھا کہ میر شکیل الرحمان کیخلاف انہوں نے ثبوت جمع کیے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ وہ جیل سے باہر آئیں۔
اس پر فخر نے اپنے سوالات دوبارہ دہرائے جو وہ گزشتہ 20؍ ماہ سے پوچھ رہے ہیں۔ اس پر واوڈا بھڑک گئے اور فخر کو ’’اوقات‘‘ یاد دلانے لگے کہ وہ جلد جنگ گروپ کے پبلشر کو بے نقاب کریں گے۔ ایک مرتبہ پھر واوڈا نے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ اس نمائندے نے مداخلت کی تو اسے بھی واوڈا کے زبانی ڈائریا کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
فخر درانی نے واوڈا سے آخر ایسا کیا پوچھ لیا کہ وہ سیخ پا ہوگئے۔ یہ سوالات ان کی امریکی شہریت، اپنی شہریت کے متعلق حلف نامے میں غلط بیانی، لندن میں 9؍ مہنگی ترین اربوں روپے کی جائیدادوں، مشکوک ڈگری اور بے نامی لینڈ ٹرانزیکشن کے متعلق تھے۔ سوالات کا جواب دینے کی بجائے وہ گرم ہوگئے اور گالیاں نکالنے لگے۔
20؍ جنوری 2020ء کو دی نیوز میں ان کی امریکی شہریت کے حوالے سے خبر شایع کی گئی تھی جو انہوں نے 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لیتے وقت جمع گئے کاغذات نامزدگی میں چھپائی ۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 8؍ جون تھی جو مزید تین دن کیلئے بڑھا دی گئی تھی۔ انہوں نے ایک حلف نامہ بھی جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے حلفاً کہا تھا کہ ان کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں ہے۔
ان کے کاغذات نامزدگی 18؍ جون کو منظور ہوگئے۔ اس منظوری کے بعد ہی واوڈا نے 22؍ جون کو کراچی میں امریکی قونصل خانے میں اپنی امریکی شہریت کی تنسیخ کیلئے درخواست دی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس وقت وہ امریکی شہری تھے۔ عموماً شہریت کی تنسیخ کی درخواست منظور ہونے میں کچھ ہفتے یا مہینے بھی لگ جاتے ہیں کیونکہ اس میں متعلقہ محکموں سے کلیئرنس بھی درکار ہوتی ہے۔ لیکن قونصل خانے نے 25؍ جون کو تنسیخ کی سند جاری کی۔ ان باتوں کا انکشاف دی نیوز کے پاس موجود دستاویزات سے ہوتا ہے۔
دی نیوز نے 27؍ مارچ 2019ء کو واوڈا کو واٹس ایپ کے ذریعے سوالنامہ بھیجا تھا کہ آیا انہوں نے شہریت سرنڈر کر دی ہے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے جواب نہیں دیا۔ واڈا کو دوبارہ 10؍ اپریل کو سوالنامہ بھیجا گیا لیکن اس مرتبہ جواب دینے کی بجائے نمائندے سے کہا کہ جو کرنا ہے کر لیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ اربوں کی لندن کی جائیدادیں آپ نے پاکستان میں ظاہر نہیں کیں، ان فلیٹس کی فروخت سے جو رقم آئی وہ بھی ظاہر نہیں کی گئی، ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں بھی ان کا ذکر نہیں۔ لندن کی ان جائیدادوں میں سے پانچ ایجویئر روڈ، دو واٹر گارڈنز اور ایک ایک اسٹورکلف اور کیمبرج اسکوائر میں ہے۔
7؍ مارچ 2019ء کو جب واوڈا سے رابطہ کرکے ان جائیدادوں کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا شکریہ بھائی میری طرف سے کوئی موقف نہیں، معاملہ عدالت میں ہے اور میں اپنے وکیل کے کہنے پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔
واوڈا نے پاکستان میں بھی ایک جائیداد اپنے ملازم کے نام پر رکھ کر چھپائی۔ دی نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق، شیر نواز خان کی خیابانِ تنظیم میں دو کمرشل پراپرٹیز ہیں (سی بائیس اور سی چوبیس)، مسٹر شیر نواز نے نجی کمرشل بینک ایمریٹس گلوبل اسلامک بینک لمیٹڈ کے ساتھ معاہدہ سائن کیا تھا اور 465؍ ملین روپے میں دونوں جائیدادیں فروخت کیں۔
معاہدہ ہونے کے بعد فیصل واوڈا سامنے آگئے اور مذکورہ بینک سے رجوع کرکے شیر نواز خان کی دی گئی پاور آف اٹارنی دکھا کر جائیداد سے جڑے معاملات کو حتمی شکل دی۔
بعد میں جب مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں آیا تو بینک کا کہنا تھا کہ واوڈا نے بینک کو بتایا تھا کہ شیر نواز خان ان کا ملازم ہے اور وہ ان جائیدادوں کے اصل مالک ہیں۔ واوڈا نے نون لیگ کی حکومت کے دوران ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2018ء میں بھی فائدہ اٹھایا اور کالے دھن کو سفید کیا۔
غیر ملکی پانچ جائیدادوں کے عوض 58؍ لاکھ روپے کا ٹیکس جمع کرایا، ان جائیدادوں کی مالیت 194؍ ملین روپے تھی جو لندن، دبئی اور ملائیشیا میں ہیں۔
جائیدادیں اور اپنی غیر ملکی جائیدادیں چھپانے کے علاوہ، واوڈا نے اپنی تعلیمی قابلیت اور دستاویزات بھی مشکوک کر دیں۔ ماضی میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ امریکی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں لیکن اپنے کاغذات نامزدگی میں انہوں نے صرف بی کام لکھا۔
واوڈا کی مبینہ اہلیہ نے بھی ان پر سنگین الزامات عائد کیے کہ انہوں نے جعلی اور غلط نکاح نامہ پیش کیا۔ واوڈا کو ان کی بیچلرز کی ڈگری کے متعلق تفصیلی سوالنامہ بھجوایا گیا تھا، ٹیکس ریکارڈ اور جعلی نکاح نامے کے متعلق بھی سوالات 17؍ فروری کو بھیجے گئے تھے۔ تاہم انہوں نے جواب نہیں دیا۔
یہ خبر روزنامہ جنگ اور روزنامہ دی نیوز میں 2 جولائی2020 کو شائع ہوئی۔