02 جولائی ، 2020
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق چیف سلیکٹر اور سابق کپتان انضمام الحق کا کہنا ہے کہ سرفراز احمد نے ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی جتوائی، ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون بنایا، انہیں بطور کپتان مزید وقت ملنا چاہیے تھا۔
انضمام کا خیال ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے سرفراز کو جلدی ہٹادیا، کپتان تجربوں سے ہی سیکھتا ہے اور جب سیکھتا ہے اس کو ہٹادیا جاتا ہے۔
جیو نیوزکو خصوصی انٹرویو میں انضمام الحق نے پاکستان کرکٹ ٹیم میں تسلسل نہ ہونے پر کھل کر بات کی اور کہا کہ جب پلیئرز اور کپتانوں کو یہ خوف ہوگا کہ وہ آج ہیں، کل نہیں تو ان کی کارکردگی متاثر ضرور ہوگی۔ کھلاڑی ایک یا دو سیریز سے ٹاپ پلیئرز نہیں بن جاتے، جب صلاحیتیں سامنے آجائیں تو ان کو ثابت کرنے کا پورا موقع دیا جائے، ایسے میں سلیکٹر کی نظر کا کردار بھی کافی اہم ہوتا ہے۔
سابق کپتان نے کہا کہ نوجوان کرکٹرز کو موقع کے ساتھ ساتھ اعتماد دینا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ بھرپور انداز میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرسکیں۔ بابر اعظم شروع میں ٹیسٹ کرکٹ میں اسٹرگل کرتے رہے لیکن ان کی صلاحیت سے کسی کو انکار نہیں تھا اس لیے ہر کسی نے بابر اعظم کو اعتماد دیا اور آج وہ ہر فارمیٹ میں اچھا پرفارم کررہا ہے۔
انضمام الحق کی سرفراز کو کپتانی سے ہٹائے جانے کے فیصلے پر تنقید
انضمام الحق نےسرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹائے جانے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ایک ایسے کپتان کو ہٹادیا گیا جس نے تین سال سے ٹیم کو ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون رکھا تھا، چیمپئنز ٹرافی جتوائی، لاتعداد میچز میں فتح دلوائی، جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کو کپتانی آتی تھی، ٹورنامنٹ میں اچھی بری پرفارمنس ہوتی رہتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب کپتان کو یہ میسج ملنا شروع ہوجائے کہ آپ ڈراپ ہوسکتے ہو تو یہ دل میں خوف بٹھا دیتا ہے جس سے پرفارمنس پیچھحے چلی جاتی ہے اور کپتان کی اپنی اور ٹیم کی پرفارمنس متاثر ہوجاتی ہے۔
سابق مایہ ناز بیٹسمین نے مزید کہا کہ ورلڈ کپ میں بھی پلیئرز کے دماغ میں خوف تھا کہ اگر ورلڈ کپ میں اچھا نہیں کھیلا تو ہٹادیا جائے گا، کپتان کو بھی یہ ڈر تھا کہ اگر ٹیم نے پرفارم نہیں کیا تو ہٹا دیا جائے گا، یہی رویہ رہا تو کرکٹ آگے نہیں جائے گی۔
'عمران خان نے بھی 10 سال بعد تیسرے ورلڈ کپ میں جاکر ٹیم کو کامیابی دلوائی'
ورلڈ کپ 1992 کی فاتح ٹیم کے رکن نے مزید کہا کہ لوگ عمران خان کی مثال دیتے ہیں، عمران خان نے بھی 10 سال بعد تیسرے ورلڈ کپ میں جاکر ٹیم کو کامیابی دلوائی کیوں کہ اس وقت تک انہیں ٹیم لڑانے کا بھرپور تجربہ ہوچکا تھا، اب ہم دو تین سال میں کپتان بدل دیں گے تو اس کو تجربہ کیسے حاصل ہوگا؟ کپتان مار کھاکر ہی تجربہ حاصل کرتے ہیں اور جب کپتان تجربہ حاصل کرنے لگتا ہے تو اسکا ہٹا دیا جاتا ہےجو پاکستان کرکٹ کیلئے بہت تکلیف دہ دہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب بابر اعظم کو کپتان بنایا ہے تو اسے اعتماد دیں اور لمبا چلائیں، اگر اچھا کپتان ثابت ہوتا ہے تو آٹھ دس سال اس کے ساتھ چلائیں۔
انضمام نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ بابر اعظم ڈمی کپتان ثابت ہوں گے، ان کی اپنی کرکٹ کی سمجھ بوجھ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ٹیم کس طرح چلانی ہے لیکن ایک چیز ضروری ہے کہ کپتان اپنی پرفارمنس پر بھی فوکس رہے کیوں کہ پورے اسکواڈ میں سب سے اہم بندہ کپتان ہوتا ہے نہ کہ کوچ یا کوئی اور ، کپتان ہی ہوتا ہے جو فیلڈ میں پلیئرز کو لڑاتا ہے اس لیے کپتان کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔
'امام الحق کو کارکردگی کی بنیاد پر سلیکٹ کیا گیا تھا'
اپنی سلیکشن کمیٹی کے دور کی بات کرتے ہوئے انضمام الحق نے کہا کہ جن نوجوان پلیئرز کو انہوں نے موقع دیا انہیں موقع کے ساتھ اعتماد بھی دیا جس کی وجہ سے وہ آج اسٹیبلش پلیئرز ہوچکے ہیں۔ شاداب خان، حسن علی ، فخر زمان سب کو اعتماد دیا گیا تھا اور انہوں نے پرفارم کیا،فہیم اشرف سے بھی بہت امیدیں وابستہ تھیں لیکن فہیم اتنا اچھا پرفارم نہیں کرسکے کہ جس کی امید تھی۔
ایک سوال پر انضمام الحق کا کہنا تھا کہ امام الحق کو کارکردگی کی بنیاد پر سلیکٹ کیا گیا تھا، اس نے ون ڈے کرکٹ میں پرفارمنس دے کر خود کو منوایا بھی اس کے باوجود بھی تنقید کی جاتی رہی، اس سے امام الحق کو فرق پڑا تھا، لوگوں کو کسی کی ذات کی بجائے پاکستان کا سوچنا چاہیے کہ پاکستان کیلئے کیا بہتر ہے ۔
'شاہین آفریدی کا بولنگ میں وہی کردار ہے جو بیٹنگ میں بابر اعظم کا ہے'
انہوں نے کہا کہ بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی ورلڈ کلاس پلیئرز ہیں، بابر محنتی پلیئر ہے اور وہ کیریئر میں بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے، کوہلی کو کھیلتے ہوئے 10 سال ہوگئے، بابر کو ابھی 3 سال ہوئے ہیں، ابھی بابر کو بہت کچھ حاصل کرنا ہے لیکن اگر دونوں کے ابتدائی کیریئر کا موازنہ کیا جائے تو بابر کے اعداد وہ شمار کافی اچھے ہیں۔
انضمام نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی کا بولنگ میں وہی کردار ہے جو بیٹنگ میں بابر اعظم کا ہے، شاہین شاہ آفریدی نہ صرف پیس سے بولنگ کرتا ہے بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ کس کو کس جگہ گیند کرانی ہے، اس میں دنیا کا ٹاپ بولر بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔