05 جولائی ، 2020
ایک بار پھر مائنس ون کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پہلے یہ باتیں محدود حلقوں میں چل رہی تھیں لیکن جمعرات 2جولائی کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی تقریر سے یہ باتیں عوامی مباحثہ کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔
جب وزیراعظم نے یہ کہا کہ ’’یہ لوگ (اپوزیشن والے) سوچ رہے ہیں کہ مجھے مائنس کرکے یہ بچ جائیں گے، میں اگر مائنس ہو بھی گیا تو ان کی جان نہیں چھوٹے گی‘‘۔ وزیراعظم کے ان جملوں سے نہ صرف مائنس ون کی باتیں عوامی مباحثہ بن گئی ہیں بلکہ اس حوالے سے قیاس آرائیاں بھی خدشات میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
جو لوگ وزیراعظم عمران خان کو ’’مائنس‘‘ کرنے کے حامی ہیں، وہ خوش ہو گئے ہیں اور جو لوگ عمران خان کو مزید حکمران دیکھنا چاہتے ہیں، وہ پریشان ہو گئے ہیں۔
حقیقت کیا ہے؟ پاکستان کی تاریخ سیاستدانوں خصوصاً سیاسی جماعتوں کے سربراہوں یا جمہوری وزرائے اعظم کو مائنس کرنے یا مائنس کرنے کی کوششوں سے بھری پڑی ہے۔
پاکستان کے یہ تاریخی حقائق خدشات کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اب بھی اگر بات نکلی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا۔ ہمیں اپنی ناقابل فخر تاریخ کی اس تلخ حقیقت کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں یا جمہوری حکومتوں کے سربراہوں کو مائنس کرنے یا مائنس کرنے کی کوششوں کے حوالے سے جو کچھ بھی ہوا، اس میں غیر سیاسی قوتوں کا غلط کردار رہا۔
سیاسی قوتیں اپنے اپنے مخصوص مفادات کے تحت اس میں صرف استعمال ہوئیں۔ آج پاکستان کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ ہم اس بحث میں بھی نہیں پڑتے کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے۔ لیکن سیاسی قوتوں کو سوچنا چاہیے کہ اس مرتبہ اگر وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے یا بچانے کا انہوں نے آئینی اور جمہوری طریقہ اختیار نہ کیا اور اس بار بھی غیر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھا اور معاملات اپنے ہاتھ میں نہ رکھے تو پھر ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل کو غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے بغیر جاری رکھنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
پاکستان کا بدترین معاشی بحران ریاستی اداروں کی بنیادیں ہلا رہا ہے۔ اس کے ساتھ اگر سیاسی بحران پیدا ہوا تو سیاسی قوتوں نے اب تک جو حاصل کیا ہے، وہ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں رہے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے کوئی آئینی یا جمہوری طریقہ اختیار نہ کریں۔ ان کے پاس یہ راستہ ہے کہ وہ وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔ ا
گر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین نہیں ہے تو وہ حکومت پر اس قدر عوامی دباؤ بڑھائیں کہ وزیراعظم خود اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں لیکن اگر تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے یا عوامی دباؤ میں آکر وزیراعظم اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دیتے ہیں اور نگران حکومت قائم کرکے نئے انتخابات کا اعلان کر دیتے ہیں تو اپوزیشن کو اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے۔
اگر اپوزیشن مذکورہ دونوں آپشنز اختیار نہیں کر سکتی تو اسے حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دینی چاہئے۔ آئینی اور جمہوری طریقے سے جو بھی حالات پیدا ہوں گے، ان میں معاملات نہ صرف سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں رہیں گے بلکہ ان معاملات پر ان کی گرفت مضبوط ہوگی۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں نہ تو آئینی اور جمہوری طریقہ اختیار کرنا چاہتی ہیں اور نہ ہی وہ اس پوزیشن میں ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ’’متحدہ اپوزیشن‘‘ کے اجلاس کے بعد اپوزیشن رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ ملک کے موجودہ بحران کا واحد حل نیا مینڈیٹ ہے۔ یعنی نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کو نئے انتخابات کے لیے کس طرح مجبور کیا جائے گا کیونکہ اسمبلی تحلیل کرنا اور نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا وزیر اعظم کا آئینی اختیار ہے۔
خواجہ آصف کی اس بات سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فوراً اختلاف کیا اور کہا کہ پاکستان موجودہ حالات میں نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ صرف وزیراعظم عمران خان کو جانا چاہیے۔ بلاول نے بھی یہ نہیں بتایا کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے کیسے ہٹایا جائے گا۔
اس کے بعد بھی بلاول بھٹو مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں مائنس ون یا کسی بھی تبدیلی کے لیے نہ صرف دوسری طرف دیکھ رہی ہیں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ غیر سیاسی قوتوں سے مطالبہ کر رہی ہیں۔ ورنہ اپوزیشن کے رہنما واضح طور پر یہ کہتے کہ ہم تحریک عدم اعتماد لا رہے ہیں یا عوامی تحریک کا آغاز کر رہے ہیں۔
وہ نہیں کہتے کہ عمران خان کو ہٹانا چاہئے یا نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔ ’’چاہئے اور چاہئیں‘‘ کے الفاظ مطالبات والے ہیں۔ جو کسی اور سے کیے جا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کوئی آئینی یا سیاسی آپشن اختیار کرتی ہے تو خود پاکستان تحریک انصاف اس کا آئینی اور سیاسی طریقے سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ تحریک انصاف کی ہیئت ترکیبی میں ’’سیاسی اور نظریاتی‘‘ عناصر کی شرح بہت کم ہے۔
وہ اپنی ہیئت ترکیبی کے مطابق چلے گی۔ اس میں بھی بہت سے لوگ دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔ اب دوسری طرف والوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ وہ صرف عمران خان کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کے معاملات کو دیکھیں گے۔ لہٰذا اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی صبر کرنا چاہیے اور جو بھی کرنا ہے آئینی اور جمہوری طریقوں سے کریں اور دوسری طرف نہ دیکھیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔