بلاگ

مہنگائی کا طوفان

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے اشیائے ضروریہ بھی مہنگی ہوگئی ہیں—فوٹو فائل

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے، پیٹرول کی قیمت100روپے لیٹر سے بڑھ گئی ہے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل101.46 روپے ہو گیا ہے، وزارتِ خزانہ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح میں ردو بدل کیا گیا ہے اور یہ پیٹرول اور ڈیزل پر 30روپے، مٹی کے تیل پر6 روپے اور لائٹ ڈیزل پر30 روپے فی لیٹر کر دی گئی ہے۔

 اس اقدام سے حکومت کو 10ارب روپے حاصل ہوں گے، سیلز ٹیکس کی آمدن بھی بڑھے گی، اضافے کے اعلان سے لگتا ہے وفاقی حکومت آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے سامنے سرنگوں ہو گئی ہے، جنہوں نے سستا تیل فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ اضافہ کرتے وقت خلاف معمول 2 باتیں کی گئی ہیں۔1 یہ کہ اضافہ مہینے کے آخری دن ہوتا ہے اور پہلی تاریخ سے اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

اب 4دن پہلے ہی قیمتیں بڑھا دی گئیں، دوسرا یہ کہ اضافے کی تمام تر کارروائی اوگرا کے ذریعے ہوتی ہے جو تیل اور گیس کا ریگولیٹری ادارہ ہے اس بار ادارے کو نظر انداز کر دیا گیا، نئی قیمتوں کا تعین پیٹرولیم خزانہ ڈویژن نے کیا۔ حکومت نے ریگولیٹری ادارے کو بائی پاس کرکے جلدی جلدی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ 

گزشتہ مہینے کے آغاز میں جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی تھی تو وزیراعظم عمران خان نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں قیمتیں پورے خطے میں سب سے کم ہیں، اُن کے اِن الفاظ کی گونج ابھی فضا میں موجود تھی کہ تیل اچانک مارکیٹ میں ناپید ہو گیا۔ پیٹرول کی معمول کی سپلائی مہینے کے آخر تک بحال نہیں ہوئی۔ چند روز پہلے پیٹرول کی قلت پیدا کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا گیا۔ گرفتاری تو کوئی نہ ہوئی البتہ خانہ پُری کیلئے بعض مارکیٹنگ کمپنیوں کو جرمانے کر دیے گئے۔

تیل کی قلت پھر بھی جاری رہی، متاثرین اپنی فریاد لے کر اعلیٰ عدالتوں تک بھی پہنچے اور بیورو کریسی کے ذمہ داروں کو طلب بھی کیا گیا، سخت ریمارکس بھی سامنے آئے لیکن پیٹرول کی قلت بدستور جاری رہی۔ اب قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا تو ہر جگہ پیٹرول آسانی سے ملنا شروع ہو گیا۔ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تیزی سے نیچے آ رہی تھیں اور تیل کمپنیوں کو خریداروں کی تلاش تھی۔

 پاکستان میں لاک ڈاؤن کے باعث تیل کی طلب کم ہوئی تو فیصلہ کیا گیا کہ تیل کی درآمد بند کر دی جائے، تیل صاف کرنے کے کارخانوں کی پیداوار بھی رک گئی چونکہ سڑکوں پر ٹریفک خال خال تھی، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بند تھی، گڈز ٹرکوں کے قافلے بھی رُکے ہوئے تھے، لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھے، ایسے میں پیٹرولیم مصنوعات کس نے خریدنا تھیں، چنانچہ بلا سوچے سمجھے درآمد ہی بند کر دی گئی، حالانکہ یہی وقت تھا کہ آئل کمپنیاں اپنی ذخیرہ کرنے کی استعداد میں اضافہ کرتیں اور عوام کو بھی سستا تیل میسر آتا لیکن وہ قسمت کے ایسے دھنی کہاں کہ کوئی اُن کا سوچے۔ 

حکومت کہتی ہے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں اِس لئے قیمتوں میں اضافہ ضروری ہو گیا تھا لیکن عالمی منڈی کے اعداد و شمار اس دعوے کی صداقت کا منہ چڑا رہے ہیں، اس وقت برینٹ آئل کی قیمت کم ہو کر 40.30ڈالر اور خام تیل (کروڈ آئل) کی قیمت 38ڈالر فی بیرل تک ہے۔

 جب تیل کی عالمی قیمتیں100 ڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ تھیں ان دنوں بھی قیمت میں اتنا اضافہ کبھی نہیں کیا گیا تھا، اس وقت کی حکومت اگر اضافہ کر بھی دیتی تو اسد عمر کیلکولیٹر لے کر بیٹھ جاتے اور حساب لگا لگا کر باور کرانے کی کوششیں کرتے کہ تیل کی قیمت کسی صورت 40،45روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ اب کوئی اسد عمر کو اپنے ٹاک شوز میں بُلا کر پوچھے کہ اس وقت جب دُنیا میں تیل38ڈالر فی بیرل بک رہا ہے تو پاکستان میں اس کی کیا قیمت ہونی چاہئے۔ 

حکومت نے پیٹرول پر لیوی کی رقم اِس لئے بڑھا دی ہے کہ اس طرح جو کچھ بھی وصول ہوگا وہ وفاقی حکومت کے خزانے میں جائے گا اور اس میں سے صوبوں کو حصہ نہیں دینا پڑے گا، جو دوسرے ٹیکس جمع ہوتے ہیں اُن کا حصہ صوبوں کو طے شدہ فارمولے کے تحت ملتا ہے، اِس لئے حکومت نے آمدنی بڑھانے کا یہ نادر نسخہ دریافت کیا ہے۔پیٹرول کی قلت کیوں پیدا ہوئی؟ 

اس کا جواب ابھی تک نہیں آیا، اتنا اندازہ البتہ ضرور ہے کہ جنہوں نے درآمد بند کرائی وہی اس کے ذمہ دار تھے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی کہ وہ جو بھی کرتے ہیں درست ہی کرتے ہیں۔ 

پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے فوری اثرات آنا شروع ہو گئے۔ خیبر پختونخوا میں ٹرانسپورٹر حضرات نے فوری طور پر کرایوں میں 15سے 20فیصد اضافہ کر دیا، لاہور میں بھی مطالبہ ہے کہ کرایوں میں 20فیصد اضافہ کیا جائے، اکثر ٹرانسپورٹروں نے از خود 15فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ 

رکشا ڈرائیوروں کی ایک یونین (عوامی رکشا یونین) نے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے پر احتجاج کیا ہے، اس سے کئی روز قبل آٹے کے نرخوں میں اضافے کی بنیاد پر تنور مالکان نے روٹی اور نان کی قیمت بڑھائی۔ کورونا وبا سے قبل پیٹرولیم مصنوعات پرانے نرخوں پر مہیا ہو رہی تھیں اور پیٹرول 98روپے فی لیٹر تھا، اس دور میں ٹرانسپورٹر حضرات نے کرائے بڑھائے تھے۔ جب دو بار پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہوئے تو ٹرانسپورٹرز نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کمی کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچایا۔ اب جونہی پیٹرول کی قیمت بڑھی توٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھا دیے۔ 

حکومت نہ تو کرائے بڑھانے پر ٹرانسپورٹرز کے خلاف کوئی کارروائی کر سکی اور نہ ہی روٹی، نان کی قیمت کم ہوئی۔ عوام پر ہر طرف سے اخراجات کا بوجھ بڑھ گیا جبکہ بیروزگاری اور آمدنی میں بھی کمی ہوئی۔ عوام پوچھتے ہیں کہ سرکاری رٹ کہاں ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔