15 جولائی ، 2020
ابھی انٹرویو شروع نہیں ہوا تھا کہ میری نظر سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی تصویر پر پڑی تو میں اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکا۔ ویسے تو وہ تصویر مشہور فلم ’’فرسٹ بلڈ‘‘ کے مرکزی کردار جان ریمبو کی تھی مگر اس کا چہرہ تبدیل کرکے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اپنا چہرہ لگایا ہوا تھا۔
ساتھ میں بندوق بھی تھی۔ اتنے میں وہ داخل ہوئے تو وہ تصویر میرے ہاتھ میں تھی۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’مجھے پتا ہے تو کچھ شرارت کے موڈ میں ہے‘‘۔ ڈاکٹر اور فہمیدہ مرزا کے خاندان سے حیدرآباد کا بھی تعلق رہا ہے اس لئے بے تکلفی بھی تھی۔ میں نے کہا، ’’کیا فلم شروع ہونے والی ہے‘‘۔ یہ بات ہے ان کے سندھ کے وزیر داخلہ بننے کے کچھ عرصے بعد کی۔
وہ 28؍اگست 2011ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ وہ لیاری جو پی پی پی کا قلعہ تھا، جہاں سے عملاً، ’’ہر گھر سے بھٹو نکالتا‘‘ تھا 2018ء میں بھٹو ہار گیا اور ہارا بھی اپنی سیاسی غلطیوں سے۔ کبھی سوچا تھا بھٹو کا نواسہ، بے نظیر کا فرزند بلاول یہاں سے ہارے گا۔
وہ لیاری جہاں ایک زمانے میں ایم پی اے احمد علی سومرو اپنی گدھا گاڑی چلاتے ہوئے سندھ اسمبلی پہنچا، حلف لیا اور واپس ’’منگو‘‘ کے ساتھ اپنا کام کرنے نکل گیا، بعد میں وزیر محنت بھی بنا۔ وہاں پی پی پی کو رحمان بلوچ، عزیر بلوچ کا سہارا کیوں لینا پڑا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ لیاری ’’گینگ وار‘‘ کی وجہ سے پہچانا جانے لگا۔ یہ تو سیاست کا قلعہ تھا۔ 2008ء سے پہلے کبھی بلوچ اور اردو بولنے والوں کے درمیان بدترین حالات میں بھی تصادم نہیں ہوا تھا۔
پی پی پی 2008ء کا الیکشن جیتی تو زرداری صاحب نے ریاستی اداروں کے اہم لوگوں کو اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ امور مملکت بہتر چلا سکتے ہیں، بے نظیر کی شہادت پر پیدا ہونے والے غصے اور احساس محرومی کو قابو کرسکتے ہیں۔
پہلے جو معاملات مخدوم امین فہیم مرحوم سے چل رہے تھے وہ ختم ہوگئے اور سائیں بیرون ملک چلے گئے کچھ عرصے کے لئے ورنہ آپ کو یاد ہوگا کہ بے نظیر کی شہادت کے فوراً بعد پہلی پریس کانفرنس میں زرداری صاحب کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ ہمارا وزیر اعظم امین فہیم ہوگا۔ پھر آغا سراج نے کان میں کچھ کہا اور بات ٹل گئی۔زرداری صاحب حکومت کی تشکیل میں لگ گئے۔
متحدہ سے اتحاد کی بات کے لئے انہوں نے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو اسلام آباد بلا لیا۔ یہ ملاقات سندھ ہائوس میں ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے ڈاکٹر کا تعارف دوسرے ڈاکٹر سے کراتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب یہ میرا جگری دوست ذوالفقار مرزا ہے‘‘۔
زرداری صاحب نے اسے صوبائی وزیر داخلہ نامزد کرتے ہوئے دو ٹاسک دیے۔ (1)ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کا خاتمہ اور (2) لیاری میں حالات قابو کوکرنا، پی پی پی کے کارکنوں کا تحفظ۔ یہ وہ وقت تھا کہ منتخب ہونے کے باوجود ایم این اے نبیل گبول اور ایم پی اے، رفیق انجینئر مرحوم کا لیاری جانا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ بقول سابق وزیر شرجیل میمن زرداری صاحب نے اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ یہاں سے بلاول کو الیکشن جتوانا ہے۔
لہٰذا وہ لیاری صاف کروانا چاہتے تھے۔ زرداری۔ مرزا معاملات چلتے رہتے تو ہوسکتا تھا کہ 2012ء میں ہی بلاول لیاری سے لڑتا۔ وہ مرزا سے غالباً وہی کام لینا چاہتے تھےجو 1994ء میں سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے کیا اور متحدہ کے مبینہ عسکری ونگ کی کمر توڑ دی۔ شاید اسی وجہ سے اس وقت کے DIG کو آئی جی سندھ بنا کر لایا گیا۔ وہ تھے ڈاکٹر شعیب سڈل۔ کچھ عرصے بعد اچانک ایک دن خبر آئی کہ متحدہ کے ایم این اے اور ایم پی اے کی سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے۔
متحدہ نے گورنر سندھ کے ذریعہ تشویش کا اظہار کیا اور گورنر نے IG کو بلاکر باور کرایا کہ اگر اس آرڈر کے بعد کوئی حادثہ ہوگیا تو ذمہ دار کون ہوگا۔ سڈل صاحب نے مرزا صاحب کو بتائے بغیر فیصلہ واپس لے لیا جس پر وہ ناراض ہوئے۔ کچھ اور اختلافات ہوئے تو IGنے کام کرنے سے معذرت کرلی۔
یہ کام اب امن کمیٹی نے مبینہ طور پر عزیر کی قیادت میں شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے حالات خراب ہوگئے۔ صورت حال اس وقت سنگین ہوگئی جب بسوں سے اتار کر لڑکے اغوا ہونے لگے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے زرداری صاحب کو واضح پیغام دیا کہ لڑکے رات تک بازیاب نہ ہوئے تو انتہائی اقدام ہوسکتا ہے۔
لڑکے بہرحال آزاد کردئیے گئے۔کوئی 20؍یا 21؍اگست 2011ء کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کراچی میں امن و امان کا اجلاس طلب کرلیا۔ اس میں کہتے ہیں مرزا بول رہا تھا سب سن رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد رحمان ملک اجلاس سے چلے گئے اور پھر گیلانی صاحب سے بھی برداشت نہیں ہوا اور اجلاس برخاست ہوگیا۔24؍ یا 25؍اگست کو زرداری صاحب نے مرزا کو ایوان صدر طلب کیا اور واپس آکر اس نے 28؍اگست کو استعفیٰ دے دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سابق چیف جسٹس نے لیاری گینگ وار، کراچی بدامنی پر ازخود نوٹس لے لیا تھا اور پولیس کو ہدایت کی کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کیا جائے۔
ذوالفقار مرزا کا موقف ہے کہ اسے استعمال کیا گیا، ایک طرف آپریشن اور دوسری طرف رحمان ملک اور زرداری کے متحدہ بانی سے رابطے۔ یہ فرسٹ بلڈ کا پارٹ۔1 ہے۔ آپ کو تو پتا ہوگا کہ اس فلم میں جان ریمبو نے صرف ’’باس‘‘ کے کہنے پر سرینڈر کیا تھا۔ پی پی پی کا ریمبو بھی خاموش رہنا چاہتا تھا مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ بدین جاتے جاتے اس نے گاڑی کراچی کی جانب گھما دی اور لیاری جاکر دھواں دھار پریس کانفرنس کی۔
اس کے جانے کے بعد عزیر گینگ بھی الگ ہوگیا۔اب آپ بناتے رہیں JIT، جرم، سیاست اور کاروبار کا ایسا خوفناک ملاپ ہے پولیس اور کچھ دوسرے لوگوں کی معاونت سے کہ سب قید ہیں مگر پھر بھی آزاد ہیں۔وفاقی وزیر علی زیدی خوش نصیب ہیں کہ انہیں لفافے میں JIT ملتی ہے ہمیں تو 2007ء میں گاڑی میں ’’گولیاں‘‘ ملی تھیں۔ بہرحال پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔