سیاحتی انڈسٹری پر پابندی ختم نہ ہوئی تو فارمز میں وافر مقدار میں موجود کروڑوں روپے کی مچھلیوں کے ضیاع کے ساتھ نئی مچھلیوں کی افزائش بھی نہیں ہوسکے گی۔
16 جولائی ، 2020
وادی سوات کے بالائی علاقوں میں بلند و بالاپہاڑوں کے دامن میں بہتے ٹھنڈے پانی کے کناروں پر ٹراؤٹ مچھلی کے سیکڑوں فارمز موجود ہیں۔ سوات کی ٹراؤٹ مچھلی یہاں کی خصوصی سوغات مانی جاتی ہے ، جو اپنی لذت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔
خاص طور پر سوات آنے والے سیاح یہاں کی ٹراؤٹ مچھلی کھانا بے حد پسند کرتے ہیں ۔ سوات ٹراوٹ فش فارمنگ ایسوسی ایشن کے صدر شاہ فیصل کے مطابق سوات میں ٹراؤٹ مچھلی کے یہ فارمز چیل، مدین، بحرین ، کالام، میاندم ، گبین جبہ، بشیگرام اور دیگر مقامات پر موجود ہیں۔
ان فارمز میں ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش اور فروخت کی جاتی ہے ۔ اس وقت سوات میں دو سرکاری اور 150 سے زائد نجی ٹراؤٹ فارمز موجود ہیں۔
سوات کے سرکاری فارمز میں ٹراؤٹ مچھلی کی فی کلو قیمت ایک ہزاراور نجی فارمز میں تیرہ سو روپے تک ہے۔ ان فارمز سے سالہا سال سوات کے بڑے ہوٹلوں سمیت پورے ملک میں ٹراؤٹ مچھلی سپلائی کی جاتی ہے ۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار سوات سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
تاہم رواں سال سوات کے ٹراؤٹ مچھلی فارمز کے مالکان پر بھاری ثابت ہوا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک بھر میں سیاحتی مقامات میں موجود تمام ہوٹلز بند ہیں۔ حکومت کی جانب سے سیاحتی مقامات میں سیاحوں کی آمد پر پابندی عائد کی گئی ہے ،جس کی وجہ سے ہوٹل انڈسٹری کے ساتھ ساتھ سوات کی ٹراؤٹ فش انڈسٹری بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔
ضلعی افسر فیشریز ابرار احمد کے مطابق ایک فارم کے تالابوں میں پانچ سو کلوگرام سے دس ہزاکلو گرام تک ٹراؤٹ مچھلی پائی جاتی ہے۔ ان فارمز میں ٹراؤٹ مچھلی کی کل پیداوار تقریباً چار سو ٹن(4لاکھ گلوگرام )ہے، جس کی قیمت پچاس کروڑ سے اسی کروڑ روپے تک بنتی ہے۔ ہوٹلز کی بندش اور سیاحوں کی آمد پر پابندی کی وجہ سے سوات میں ٹراؤٹ مچھلی کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جس کی وجہ سے ان فارمز میں موجود چار سو ٹن ٹراؤٹ مچھلی کے ضائع ہونے اور ساٹھ کروڑ روپے سے زائد کے نقصان کا اندیشہ ہے ۔
اس حوالے سے سوات ٹراؤٹ فش فارمنگ ایسوسی ایشن کے صدر شاہ فیصل خان کا کہنا ہے کہ’’ ایک بڑے فارم میں ٹراؤٹ مچھلیوں کی خوراک پر سالانہ 30 لاکھ روپے تک کا خرچہ آتا ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کا عمل تقریباً چودہ ماہ میں مکمل ہوتا ہے، جس کے بعد یہ فروخت کے قابل ہوجاتی ہے ۔ چودہ ماہ بعد ایک ٹراؤٹ مچھلی کا وزن دو سو پچاس گرام تک ہوتا ہے ۔ مارچ کے مہینے سے اس کی فروخت شروع ہوتی ہے ۔ ان دنوں ٹراؤٹ مچھلی کی مانگ اور فروخت نہ ہونے کی وجہ سے فارمز میں موجود مچھلیوں کی عمر بڑھ رہی ہیں۔ عمر بڑھنے سے مچھلی مختلف امراض کا شکار ہوتی ہیں ، جس کے بعد ان کا وزن آہستہ آہستہ کم ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارمز کے تالاب میں بڑی تعداد میں موجود ٹراؤٹ مچھلی کے مرنے اور ضائع ہونے کا امکان ہے ۔ ‘‘
چونکہ ان فارمز میں فروخت سے 14 مہینے پہلے مچھلیوں کی افزائش کا عمل شروع ہوتا ہے، اس لئے رواں سال فارم مالکان تالاب میں پہلے سے موجود مچھلیوں کی فروخت نہ ہونے کی وجہ سے اگلے سال کے لیے مچھلی کے بچے خریدنے اور افزائش سے کترا رہے ہیں۔
اگر سیاحتی انڈسٹری پر پابندی ختم نہ ہوئی اور صورتحال جوں کی توں رہی، تو فارمز میں وافر مقدار میں موجود مچھلیوں کے ضیاع اور کروڑوں روپے کے نقصان کے علاوہ نئی مچھلیوں کی افزائش بھی نہیں ہوسکے گی۔ جس سے اگلے سال ملک بھر اور بڑے ہوٹلوں میں ٹراؤٹ مچھلی کی قلت ہوگی ۔ دوسری طرف ٹراؤٹ مچھلی کا کاروبار ٹھپ ہونے سے مچھلیوں کی خوراک اور دیکھ بھال پر مامور فارمز میں کام کرنے والے تقریباً ً1500 ملازمین میں سے زیادہ تر اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے اب تک 14سو سے زائد افراد کو نکالا گیا ہے، جو اب بے روزگار ہیں ۔