26 جولائی ، 2020
اسکول کی بہت ہی ابتدائی کلاسوں سے ہی بہترین اساتذہ نصیب ہوئے جن میں صوفی عبدالرحمٰن صاحب مرحوم و مغفور ہمیں انگریزی پڑھاتے لیکن حلیہ انتہائی غیر انگریزی، وجاہت میں اضافہ کرتی ہوئی داڑھی، سردیاں گرمیاں شیروانی، شلوار اور کھسہ ،ان کی تصویر آج بھی میرے کمرے میں آویزاں اور ان کی بہت سی باتیں آج بھی یاد ہیں جن میں سے ایک بات میں کئی بار لکھ بھی چکا ہوں اور وہ یہ کہ ’’ہر ٹیچر کو لیڈر اور ہر لیڈر کو ٹیچر ہونا چاہئے‘‘۔
واقعی ہر جینوئن استاد اور قابل ذکر قائد سکھاتا بھی ہے، موٹی ویٹ، موبلائز اور انسپائر بھی کرتا ہے۔کبھی ہمارے ہاں بھی ایسے اساتذہ ہوتے جو لیجنڈز کا سا مقام رکھتے تھے لیکن پھر جیسے جیسے زوال و انحطاط کی رات پھیلتی اور گہری ہوتی گئی یہ اتم اور اعلیٰ ترین پیشہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔عدیم ہاشمی صحیح کہتا ہے۔
گرو تو ساتھ گرے شان شہسواری بھیزوال آئے تو پورے کمال میں آئےزوال کی زد میں آئے معاشروں میں سبھی کچھ متاثر ہوتا ہے کیونکہ انسانی معاشرہ بھی انسانی جسم کی مانند ہے جس کے ایک دو اعضاء بھی ’’بیمار‘‘ ہو جائیں تو بتدریج پورے جسم کو ہی لے بیٹھتے ہیں۔معاشرہ عروج کی طرف مائل پرواز ہو تو پورے کا پورا ہوتا ہے، اس کے برعکس ہو تو اس میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رہتی سو یہ کیسے ممکن تھا کہ تعلیم و تدریس کی دنیا کینسر، زنگ اور دیمک سے بچی رہتی۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ پچھلے دنوں اک ہائی پروفائل تعلیمی ادارے بارے شرمناک خبریں سننے پڑھنے کو ملیں۔یقین نہیں آتا کہ ’’اساتذہ‘‘ کے روپ میں انسان نما گٹر اپنی طالبات، اپنی بیٹیوں، اپنی بہنوں کو انتہائی قابل اعتراض پیغامات، ویڈیوز اور تصاویر بھیجتے رہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ان کی رگوں، شریانوں، ریشوں میں کس قسم کا خون اور دودھ رواں دواں ہو گا اور ان لوگوں کی کس قسم کے ماحول میں پرورش ہوئی ہوگی۔
ہماری بیشمار بدصورتیوں اور کجیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اکثر و بیشتر سلوموشن میں ری ایکٹ کرتے ہیں لیکن میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ،شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کی توجہ کے نتیجہ میں تعلیمی اداروں کے اندر طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے حوالہ سے قانون سازی کا ڈرافٹ فائنل ہو چکا جو آئندہ ہفتہ وزارت قانون میں پیش کر دیا جائے گا۔
اک اخباری خبر کے مطابق طالبات کو ہراساں یا بلیک میل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر ’’اساتذہ‘‘ کو بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ تاحیات پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جیل بھی ہو سکتی ہے۔ ڈرافٹ میں ٹیچر لائسنسنگ کے حوالہ سے بھی متعدد سفارشات بھجوائی جا رہی ہیں۔ وزارت قانون سے منظوری کے بعد یہ ڈرافٹ قانون کا حصہ بن جائے گا۔
یاد رہے کہ لاہور کے ایک اسکول میں طالبات کی ہراسگی کے واقعات کی خبریں عام ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نے معاملہ کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے ملزمان کے سوشل میڈیا اکائونٹس بند کر دیئے ہیں۔ اس غلیظ اور مکروہ حرکت میں ملوث ٹیچر سمیت چار دیگر افراد کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے ۔
تحقیقات پر انکشاف ہوا کہ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا جس کے نتیجہ میں بہت سی طالبات اسکول چھوڑنے پر بھی مجبور ہوئیں۔ یہ قابل نفرت دھندا تادیر اس لئے چلتا رہا کہ بچیوں نے انتظامیہ کو صورتحال بتانے سے گریز کیا۔
ہر اسکول کی انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ طالبات میں اس بات کا شعور ، ادر اک اور جرأت پیدا کرے کہ ایسی کسی بھی حرکت پر فوری طور پر اس سے رابطہ کریں تاکہ انتظامیہ ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کرسکے تو دوسری طرف ایسے شیطان صفت لوگوں کیلئے سخت ترین سزاؤں کےساتھ ساتھ انہیں ان کے کرتوتوں سمیت سوشل میڈیا پر بھی ایکسپوز کیا جانا چاہئے تاکہ ایک ادارہ سے فارغ ہونے کے بعد نجاست و غلاظت کے یہ چلتے پھرتے نمونے کسی اور ادارے میں جاکر بدبو کا سبب نہ بن سکیں کیونکہ چند مخصوص جرائم مکمل طور پر مردہ ضمیر میں ہی زندہ ہوتے ہیں۔ RICNARD ARMOURکی اک نظم سے اقتباس جو بات کو بہتر طو رپر بیان کر رہا ہے۔
"THE CONSCIENCE IS A BUILT IN FEATURETHAT HAUNTS THE SINNER, HELPS THE PREACNER, SOME SINS IT MAKES US TURN AND RUN FROM,BUT MOST IT SIMPLY TAKES THE FUN FROM"
کیا ہماری وزارت قانون تعلیمی اداروں میں طالبات کے تحفظ کو سو فیصد یقینی اور فول پروف بنا سکتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔