31 جولائی ، 2020
اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) کی آزادی اور خودمختاری پر ایک بار بھی سوالات اٹھا دیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے ایف بی آر کو لکھے گئے دوسرے خط کی کاپی جیو نیوز نے حاصل کر لی جس میں سرینا عیسیٰ نے کہا ہے کہ جس شخص نے اے آر یو کے ساتھ مل کر غیر قانونی طور پر مجھ سے متعلق معلومات اکٹھا کیں اسی شخص کو میرے کیس میں اِنکم ٹیکس آفیسر مقرر کر دیا گیا ہے۔
سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ 9 جولائی2020 سے ان سوالات کا جواب مانگ رہی ہوں مگر ایف بی آر حکام میرے پوچھے گئے 12سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے شکایت کی کہ اپنے ٹیکس ریٹرنس کی کاپی کا مطالبہ کیا تھا جو فراہم نہیں کیے جا رہے، ریحان نقوی جنہوں نے میرے ٹیکس ریٹرن فائیل کیے تھے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر میں 21 جولائی کو خود دوبارہ ایف بی آر میں پیش ہوئی اور جواب الجواب جمع کرایا۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر کے بھیجے گئے نوٹسز کی تحریروں میں واضح فرق موجود ہے تاہم دونوں پر دستخط کمشنر ایف بی آر ذوالفقار احمد کے ہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات واضع ہو چکی ہے کہ ایف بی آر حکام کسی سے ہدایات لے رہے ہیں۔
واضح رہےکہ سپریم کورٹ نے 19 جون 2020 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا تھا جو 10 رکنی لارجر بینچ کا متفقہ فیصلہ تھا تاہم بینچ کے 7 ججز نے جسٹس قاضی کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ انکم ٹیکس کمشنر جسٹس فائز کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس جاری کرے گا جس پر 60 روز میں کارروائی مکمل کی جائے گی۔
عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا کہ جسٹس فائز کی اہلیہ اور بچے لندن کی تینوں جائیدادوں کے حوالے سے ذرائع اور وسائل کے بارے میں ایف بی آر میں وضاحت دیں۔
7 ججز نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ ایف بی آر میں بغیر التوا کارروائی مکمل ہونے کے بعد تمام ریکارڈ رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھیجا جائے جو فوری طور پر تمام ریکارڈ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد جو کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، انہیں پیش کرے، اگر سپریم جوڈیشل کونسل ریکارڈ کے جائزے کے بعد مناسب سمجھتی ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ازخود کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔