10 اکتوبر ، 2019
اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کر دیئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچے اُن کے بے نامی دار ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیداد خریدنے کے ذرائع بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔
انور منصور خان نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قابل سماعت نہیں اور اُن کے الزامات محض مفروضوں پر مبنی ہیں۔
انہوں نے اپنے جواب میں لکھا کہ احتساب اور شفافیت جمہوریت کا حصہ ہے اور احتساب سے جج سمیت کوئی بھی شخص بالاتر نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں ایک جگہ لکھا کہ صدر اور وزیراعظم کو اپنی ذمہ داریوں پر آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ ہے۔
اس حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 248 صرف صدر کو استثنیٰ فراہم کرتا ہے اور وہ بھی صرف فوجداری مقدمات میں، سول مقدمات میں صدر کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کا کیس ہمارے سامنے ہے جس میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری پر این آر او کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
انور منصور خان نے کہا کہ بطور اٹارنی جنرل کونسل کی معاونت کرنا آئینی ذمہ داری ہے اور وزیر قانون کا بار کونسلز میں چیک تقسیم کرنا غلط نہیں ہے۔