20 جولائی ، 2020
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 19 جون کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے اپنے مختصرفیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس خارج کر دیا تھا اور 7 ججز نے قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کو بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
اب جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 19 جون کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار تھا جس میں تاخیر کی گئی لہٰذا نظرثانی درخواست داخل کرنے کی مدت گزر نہ جائے تو اس لیے نظرثانی درخواست دائر کررہا ہوں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر نے میرے اہلخانہ کے خلاف کارروائی تفصیلی فیصلے سے پہلے ہی شروع کردی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عبوری فیصلے میں حقائق اور دائرہ اختیار سے متعلق مواد میں سقم ہیں اور بہت سے معاملات میں مجھے اور میرے اہلخانہ کو سنا ہی نہیں گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا درخواست میں کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل اور ایف بی آر کو بھی نہیں سنا گیا اور عبوری حکم میں آرٹیکل 4، 10 اے، 24، 175/2 اور 184/3 سمیت دیگر آرٹیکل کو نظر انداز کیا گیا۔
درخواست کے مطابق ریفرنس کالعدم ہونے کے بعد ایف بی آر کو تحقیقات کے لیے کہنا بلا جواز ہے اور ایف بی آر کو سپریم جوڈیشل کونسل میں رپورٹ جمع کرانے کے احکامات بھی بلاجواز ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کو اس معاملے میں ہدایات دینا ایگزیکٹو کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے جب کہ ایگزیکٹو میرے خلاف پہلے غیرقانونی اقدامات کرچکی ہے۔
جسٹس فائر عیسیٰ کا کہنا ہے کہ مختصرفیصلے کے بعد ایف بی آرچیئرمین کی تبدیلی کرکے حکومت نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی اور چیئرمین ایف بی آرکی تبدیلی اپنے من پسند نتائج کے حصول کی غماز ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایف بی آرکی جانب سے درخواست گزار کی رہائشگاہ کے باہرنوٹس چسپاں کرنا بدنیتی پر مبنی ہے، نوٹس چسپاں کرنا میری اور اہلخانہ کی تضحیک کرنے کے مترادف ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ فروغ نسیم نے اب تک اپنے دلائل 2 حصوں میں تحریری طور پرجمع کرائے ہیں اور میں بھی مزید اضافی دستاویزات جمع کرانے کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے پر نظرثانی کرکے عبوری حکم کو ختم کرے، نظرثانی درخواست پر فیصلے تک عدالتی فیصلے پرعملدرآمد روک دیا جائے اور عبوری حکم سے پہلے ہماری زیر التوا متفرق درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے بھی 19 جون کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواست دائر کردی ہے اور استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ عبوری حکم کے پیرا 3 سے 11 تک کی نظرثانی کرے۔
سرینا عیسیٰ کی استدعا ہے کہ سپریم کورٹ تفصیلی حکم میں اس کی وجوہات بھی دے، نظر ثانی درخواست پر فیصلے تک عدالتی فیصلے پر عملدرآمد روکا جائے، عبوری حکم سے پہلے ہماری زیر التوا متفرق درخواستوں کو سماعت کےلیے مقرر کیا جائے۔
درخواست گزار سرینا عیسیٰ کا مؤقف ہے کہ شہزاد اکبر نے بھی سادہ کاغذ پر اپنا ڈیکلیریشن دیا ہے، شہزاد اکبر کا یہ جائیدادوں کا اسٹیٹمنٹ ظاہر کرنے سے چھپانا زیادہ لگتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے لندن کی جائیدادوں پر وضاحت مانگی تھی جس پر ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے 9 جولائی کو ایف بی آر دفتر پیش ہو کر دستاویزات جمع کرائی تھیں۔