03 اگست ، 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے چڑیا گھر میں شیر اور شیرنی سمیت دیگر جانورون کی ہلاکت سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جو جانوروں کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ انسانوں کا کیا خیال رکھیں گے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں مرعزار چڑیا گھر سے جانوروں کی منتقلی کے دوران شیر اور شیرنی سمیت دیگر جانوروں کی ہلاکت سے کیس پر سماعت ہوئی۔
اس دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چڑیا گھر سے شیر کو لاہور منتقل کیا جا رہا تھا تو وہ ہلاک ہوگیا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ سب وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی نااہلی ہے، عدالت نے فیصلے میں پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ جانوروں کو کچھ ہوا تو کون ذمہ دار ہو گا، عدالت کو احساس تھا کہ یہ ہونے جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے حکومتی نمائندوں سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے چڑیا گھر سے متعلق اس عدالت کا فیصلہ پڑھا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ کو چڑیا گھر سے متعلق فیصلہ پڑھنے کی ہدایت دی۔
بعدازاں چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی طرف سے کون آیا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر تو زرتاج گل ہیں، وفاقی حکومت نے بھی نوٹیفکیشن دیا تھا کہ بورڈ میں کون ہوگا مگر کوئی نظر نہیں آیا کیوں نہ ان تمام ممبران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان تمام ممبران نے اس عدالت کے فیصلے کی توہین کی، کیا ان تمام ممبران کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی؟
جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی، ایم سی آئی اور سی ڈی اے سب سیاست کر رہے ہیں، سب کریڈٹ لینے کو تیار ہیں مگر کوئی بھی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ جو جانوروں کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ انسانوں کا کیا خیال رکھیں گے؟ وفاقی حکومت اس عمل سے بے نقاب ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کی انکوائری کون کر رہا ہے؟ جن کی نااہلی سے جانور ہلاک ہوئے کیا وہی انکوائری بھی کر رہے ہیں؟
بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی اور چیئرمین وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو کل ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
اس کے علاوہ عدالت نے کارروائی کے لیے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اور دیگر عہدیداروں کے نام بھی طلب کر لیے ہیں۔