10 اگست ، 2020
کراچی: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے شہر میں بل بورڈ گرنے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے شدید برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ کراچی کو ہر کوئی تباہ کررہا ہے لگتا ہے حکومت اور میئر کی شہریوں سے دشمنی ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں شہر میں بل بورڈ گرنے کے معاملے کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں میئر کراچی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، کمشنر کراچی اور دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے شہر میں بل بورڈز گرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کے الیکٹرک کے سی ای او کو فوری طلب کرلیا۔
کمشنر کراچی نے اس معاملے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ہم نے مقدمہ درج کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پورے شہر میں بل بورڈ لگےہوئے ہیں، ہر جگہ آپ کو بل بورڈز نظر آئیں گے، اگر یہ بل بورڈ گر گئے تو بہت نقصان ہوگا، آپ کو مکانوں پر بل بورڈز نظر آئیں گے، عمارتوں پر اتنے بل بورڈز لگےہیں کہ کھڑکیاں بند ہوگئی ہیں، مکانوں پربل بورڈ کی وجہ سے ہوا ہی بند ہوگئی ہے ، یہ تو قانون کی خلاف ورزی ہے، حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوبتے ہیں، میری گاڑی کا پہیا بھی گٹر میں چلا گیا تھا:
چیف جسٹس
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہرآدمی خود مارشل لاء بنا بیٹھا ہے، سندھ حکومت کی رٹ کہاں پر ہے، کوئی ہے جو اس شہر کو صاف کرے؟
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ کا آنا جانا اُس جگہ سے ہےجہاں شہر صاف ہوتا ہے، بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوبتے ہیں، میری گاڑی کا پہیا بھی گٹر میں چلا گیا تھا، یہ بھی آپ لوگوں کا شہر ہے، مجھے تو لگتا ہے کراچی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے، سندھ حکومت کی بھی اس شہر سے دشمنی ہے اور لوکل باڈیزکی بھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میئر کراچی کہتے ہیں میرے پاس اختیارات نہیں، اگر اختیارات نہیں تو گھر جاؤ،کیوں میئر بنے بیٹھے ہو۔
معزز چیف جسٹس نے میئر کراچی وسیم اختر سے سوال کیا کہ آپ کب جائیں گے؟ اس پر میئر نے بتایا کہ 28 اگست کو مدت ختم ہوگی، اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ جاؤ، جان چھوٹے شہر کی، مستقل کراچی کے میئرز نے شہر کو تباہ کردیا ہے، کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں ہے، لوگ آتے ہیں جیب بھر کر چلے جاتے ہیں، شہر کیلئے کوئی کچھ نہیں کرتا، کے الیکٹرک والے بھی یہاں مزے کر رہے ہیں، بجلی والوں نے باہر کا قرضہ کراچی سے نکالا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بل بورڈ کس نے لگایا تھا؟ اس پر ایس ایس پی ساؤتھ نے بتایا کہ 2 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے اور انہیں تلاش کررہے ہیں۔
پولیس افسر کے جواب پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ سمندر کے نیچے چلے گئے ہیں ؟ عدالت میں فضول باتیں مت کرو جاؤ اور ان کو آدھے گھنٹے میں ڈھونڈھ کر لاؤ۔
پورے شہر میں کچرا اورگندگی ہے، ہر طرف تعفن کی صورتحال ہے: جسٹس گلزار
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ لوگ کیسے ان عمارتوں میں رہتےہیں جہاں ہواہوتی ہے نہ روشنی، نہ دن رات کا پتہ چلتا ہے، یہ سب بلڈنگ پلان کی خلاف ورزی ہے، یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہے؟ کیسے بل بورڈز لگانے کی اجازت دے دی جاتی ہے؟کہاں ہےحکومتی رٹ؟ وزیر اعلیٰ سندھ صرف ہیلی کاپٹر پر دورہ کرکے آجاتے ہیں ہوتا کچھ نہیں ہے، پورے شہر میں کچرا اورگندگی ہے، ہر طرف تعفن کی صورتحال ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، کیا کوئی اس شہر کے لیے کرنے والا ہے؟ کیا یہاں کہ لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی دشمی نکالی جاتی ہے؟ لگتا ہے لوکل باڈیز اور صوبائی حکومت کی اس شہر سے دشمنی ہے، مئیر کراچی بھی شہر سے دشمنی نکال رہے ہیں، لوگوں نے اس کو ووٹ دیا تھاکہ کراچی کے لیے کچھ کرے گا۔
جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ کہاں ہے مئیر کراچی ؟ اس پر میئر کراچی نشست سے کھڑے ہوگئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جاؤ بھائی اب جان چھوڑو۔
کے الیکٹرک کی پوری انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے:
چیف جسٹس
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کراچی کو ہر کوئی تباہ کررہا ہے، شہر سے ہر کوئی اپنے حصے کی بالٹی بھرکرچلا جاتا ہے، یہاں لوگ ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہوئے ہیں، یہاں لگتا ہے سب کے سب مافیا بنے ہوئے ہیں، وزیروں کو دیکھو مسکراتےہیں بڑی بڑی گاڑی میں گھومتے ہیں، ایک چھوٹا سا آدمی کراچی کی بجلی بند کردیتا ہے، روز 8 ، 10 لوگ کرنٹ لگنے سے مر جاتے ہیں، کسی کی اتنی ہمت کہ وہ کراچی کی بجلی بند کرے، کےالیکٹرک نے اربوں کھربوں کےحساب سے کما لیا ہے، کے الیکٹرک کے ڈائریکٹرز کو گرفتار کیا جائے اور انہیں جیل بھیجا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کے الیکٹرک کے سی ای او کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے، کے الیکٹرک کی پوری انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے، ہم حکم نامہ بھی جاری کریں گے۔