13 اگست ، 2020
بالآخر پشاور بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) کا پہیہ چل پڑا، وزیراعظم عمران خان نے منصوبے کا افتتاح کردیا، ابتدائی طور پر 27 کلو میٹر روٹ پر 128 جدید ائیر کنڈیشن بسیں چلیں گی۔
وزیر اعظم کو افتتاح سےپہلے منصوبے کے متعلق تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی اور وزیر اعظم نے افتتاح کرنے کے بعد بس میں سفر بھی کیا۔
پہلے اسٹاپ تک 10 روپے اور پھر ہر 5 کلومیٹر کے فاصلے پر 5 روپے کرایہ ہوگا، مسافروں کو بسوں اور اسٹیشنوں میں مفت وائی فائی کی سہولت حاصل ہوگی، روزانہ 4 لاکھ سے زیادہ مسافر بی آر ٹی پر سفر سے مستفید ہوں گے۔
71 ارب روپے سے زیادہ لاگت کے اس منصوبے کے تحت 220 بسیں چلائی جائیں گی جس کے ذریعے روزانہ ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مسافر مستفید ہوں گے۔
بہترین سہولتوں سے آراستہ جدید ائیرکنڈیشنز بسوں میں اب پشاور کے شہری سفر کرسکیں گے جس میں انہیں وائی فائی اور موبائل چارجنگ سمیت دیگر سہولیات میسر ہوں گی، اس کے علاوہ معذور افراد کے لیے بھی بسوں اور اسٹیشنز میں الگ جگہ مختص کی گئی ہے۔
مسافروں سے پہلے اسٹاپ تک 10 روپے اور پھر ہر 5 کلومیٹر کی مسافت پر 5 روپے کرایہ وصول کیا جائے گا۔
مسافروں کی معلومات کے لیے جدید نظام وضع کیا گیا ہے جب کہ پلیٹ فارمز پر مسافروں کی حفاظت اور مؤثر کارکردگی کے لیے خود کار دروازے نصب کیے گئے ہیں، بس اسٹیشنز میں مسافروں کی سہولت کے لیے خود کار برقی سیڑھیاں اور لفٹ کی سہولت بھی دستیاب ہوگی۔
معاون خصوصی اطلاعات کامران بنگش کا کہنا ہے کہ چمکنی سے کارخانو مارکیٹ تک 27 کلومیٹر کا گھنٹوں میں طے ہونے والا سفر اب ذو ایکسپریس سے صرف 45 منٹ جب کہ بی آرٹی اسٹاپنگ روٹ کے ذریعے ایک گھنٹے میں طے ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ شہری موبائل ایپ اور سفری کارڈ جب کہ ٹوکن سسٹم سے بھی کرایہ ادا کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ بی آر ٹی میں سائیکل ٹریک اورسائیکلوں کے لیے 32 اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں، منصوبہ کے لیے ماحول دوست بسوں کا چناؤ کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کا میگا پراجیکٹ بی آر ٹی کا سنگ بنیاد اکتوبر 2017 میں سابق وزیراعلیٗ پرویز خٹک کے دور حکومت میں رکھا گیا جس کی تکمیل کے لیے 6 ماہ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم اس دوران کم وبیش 8 مرتبہ منصوبے کے افتتاح کے حوالے سے ڈیڈ لائنز دی گئیں۔
منصوبے پر لاگت کا ابتدائی تخمیہ 49 ارب روپے لگایا گیا تھا تاہم منصوبے کے ڈیزائن میں نقائص کے باعث اس میں دو درجن سے زائد مرتبہ تبدیلیاں لائی گئیں جس سے اس کی لاگت 71 ارب روپے سے تجاوز کرگئی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ منصوبے کو مقررہ وقت سے پہلے ہی مکمل کرلیا گیا ہے۔
بی آرٹی منصوبے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک سے آسان شرائط پر قرضہ لیا گیا ہے اور منصوبے کی لاگت کا 15 فیصد حصہ صوبائی حکومت نے ادا کیا ہے۔
ہائی کورٹ کے حکم پر نیب اور ایف آئی اے نے منصوبے میں بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی تحقیقات کیں تاہم صوبائی حکومت نےاس حوالے سے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لیا تھا۔