13 اگست ، 2020
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں لوڈ شیڈنگ پر ایک بار پھر کے الیکٹرک انتظامیہ کی سرزنش کر دی۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ایک بار پھر کے الیکٹرک انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آدھے کراچی میں بجلی نہیں ہوتی، یہ ہوتے کون ہیں بجلی بند کرنے والے؟ پرسوں ان کو کہا تو کل آدھے کراچی میں بجلی بند کر دی، ان کا دماغ ٹھیک ہے؟
وکیل کے الیکٹرک نے کہا کہ سر بجلی بند نہیں ہوئی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ مرتے ہیں اور یہ جا کر ہائی کورٹ سے 50، 50 ہزار روپے میں ضمانت کروا لیتے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ بیٹھا ہے اس کام کے لیے، یہ جا کر ضمانت لے لیتے ہیں، لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے، ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔
چیئرمین نیپرا نے عدالت کو بتایا کہ کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی ہو تو اسٹے لے لیتے ہیں، گیس، فیول اور بجلی کی پیداوار تک ان کے سارے معاملات خراب ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ساری دنیا میں ریگولیٹرز کے معاملات عدالت میں نہیں جاتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی اجارہ داری ہے جس کا خمیازہ کراچی والے بھگت رہے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ کے الیکٹرک کے خلاف پچھلے سال کارروائی ہو جاتی تو اس سال لوگ نہیں مرتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو بجلی پانی نہیں ملتا، رہنے کیلئے جگہ نہیں ملتی، اور وزراء بڑی بڑی گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں میں لوگوں کو دیکھنے آ جاتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ کیا وہ بندر ہیں جو یہ تماشہ دیکھنے آئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان لوگوں کو جیل میں کوئی مسلئہ نہیں، ان کو اس وقت مسلئہ ہوتا ہے جب پیسہ نکلوایا جائے، جیل میں تو انجوائے کرتے ہیں ان کی جیب پر بات آئے تب جان جاتی ہے۔
سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی عدالت میں پیش ہوئے اور شہر میں لوڈ شیڈنگ سے متعلق رپورٹ جمع کرائی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہے رپورٹ میں ہمیں پڑھ کر بتائیں، جس پر مونس علوی نے بتایا کہ کراچی کے 75 فیصد علاقوں میں زیرو لوڈ شیڈنگ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دہلی کالونی، محمود آباد، ڈیفنس فیز فائیو اور سکس میں میں کل وفقے وقفے سے بجلی بند تھی، جس پر سی ای او کے الیکٹرک نے بتایا کہ گیس کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہوئی۔
چیئرمین نیپرا نے کہا کہ کے الیکٹرک نے عدالتوں سے جتنے اسٹے لیے ہیں ان کی فہرست لایا ہوں، کے الیکٹرک نے صارفین کے 40 ارب روپے پر بھی حکم امتناع لیا ہے، نجی کمپنی سے بجلی خریدنے پر بھی حکم امتناع لے رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن صارفین کا پیسہ بنتا ہے کے الیکٹرک واپس کرے، ان کے ہر منصوبے میں گڑ بڑ ہے، سوئی سدرن کمپنی سے گیس کا منصوبہ بھی نہیں ہوا۔
وکیل صارفین نے کہا کہ کے الیکٹرک کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کے الیکٹرک کے خلاف اوور بلنگ کی شکایات ہیں، کے الیکٹرک پر بھاری جرمانہ عائد ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس گلزاز احمد نے کہا کہ کے الیکٹرک والے صرف یہاں پیسا بناتے ہیں، سیاستدان جیل چلے جاتے ہیں، ان کے لیے مسئلہ نہیں ہے۔
چیئرمین نیپرا نے عدالت کو بتایا کہ ہم کے الیکٹرک پر جرمانہ لگاتے ہیں تو یہ حکم امتناع لیکر آ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کو صرف پیسہ چاہیے، ان کا باس چاہتا ہے کراچی والوں کا پیسہ نچوڑیں، جس کمپنی کا مالک جیل میں بیٹھا ہو اس سے کیا امید ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری حکومت کا حال دیکھیں، ایسی کمپنی کو کراچی دیا ہوا ہے، یہ ڈیفالٹر کمپنی ہے اس کا مالک جیل میں بند ہے اور کے الیکٹرک چلا رہا ہے، پورا ملک بھی اسی کو دے دیں، سارے معاملات آپ کے اتنے گندے ہیں کیا کہیں؟
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے متعلق مزید سماعت اسلام آباد میں ہو گی۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاق سے کراچی کو مستقل بجلی کی فراہمی کا پلان پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔